بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 ربیع الاول 1446ھ 04 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

غسل خانہ میں دعا مانگنے کا حکم


سوال

 مجھے چلتے پھرتے ہر وقت دعا مانگنے کی عادت ہے۔ تو میں جب غسل خانے میں غسل کی خاطر جاتی ہوں تب بھی دعائیں مانگتی ہوں، کیا میری یہ دعائیں مانگنا جائز ہے؟ کیا یہ دعائیں قبول ہوں گی؟

جواب

غسل خانہ کی طرف جاتے ہوئے تو دعائیں مانگی جاسکتی ہیں البتہ غسل خانہ میں دعا مانگنا مکروہ اور خلاف ادب ہے لہذا سائلہ کو چاہیے کہ غسل خانہ میں دعا نہ مانگے۔

جہاں تک دعا کے قبول ہونے کا تعلق ہے تو  یہ جاننا چاہیے کہ اللہ تعالی ہر دعا کو سنتے ہیں قبول کرتے ہیں، البتہ قبولیت کا ظہور تین طریقہ سے ہوتا ہے : ۱) جو مانگا جائے وہ مل جاتا ہے، ۲)دعا کے بدلے دعا مانگنے والے  سے کوئی بلاء یا مصیبت دور کردی جاتی ہے، ۳) اس دعاء کو آخرت کے لیے ذخیرہ کردیا جاتا ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: وآدابه كآدابه) نص عليه في البدائع: قال الشرنبلالي: ويستحب أن لا يتكلم بكلام مطلقا، أما كلام الناس فلكراهته حال الكشف، وأما الدعاء فلأنه في مصب المستعمل ومحل الأقذار والأوحال اهـ.

أقول: قد عد التسمية من سنن الغسل فيشكل على ما ذكره تأمل. واستشكل في الحلية عموم ذلك بما في صحيح مسلم عن «عائشة - رضي الله عنها - قالت كنت أغتسل أنا ورسول الله - صلى الله عليه وسلم - من إناء بيني وبينه واحد، فيبادرني حتى أقول دع لي» وفي رواية النسائي «يبادرني وأبادره حتى يقول دعي لي وأقول أنا دع لي» " ثم أجاب بحمله على بيان الجواز أو أن المسنون تركه ما لا مصلحة فيه ظاهرة. اهـ. أقول: أو المراد الكراهة حال الكشف فقط كما أفاده التعليل السابق، والظاهر من حاله - عليه الصلاة والسلام - أنه لا يغتسل بلا ساتر."

(کتاب الطہارۃ، سنن الغسل ج نمبر۱ ص نمبر ۱۵۶، ایچ ایم سعید)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(وعن أبي سعيد الخدري - رضي الله عنه - أن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: " «ما من مسلم يدعو بدعوة ليس فيها إثم ولا قطيعة رحم إلا أعطاه الله بها إحدى ثلاث: إما أن يعجل له دعوته، وإما أن يدخرها له في الآخرة، وإما أن يصرف عنه من السوء مثلها " قالوا: إذا نكثر، قال: " الله أكثر» " (رواه أحمد)

(عنه من السوء) : أي: البلاء النازل أو غيره في أمر دينه أو دنياه أو بدنه."

(کتاب الدعوات، ج نمبر ۴ ص نمبر ۱۵۳۷، دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406101135

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں