اگر ایک صاحب بابا گرونانک کے مزار پر جا کر فاتحہ پڑھے یا دعا کرے، جب کہ وہ سکھوں کی درگاہ ہے تو اس کا کیا حکم ہے؟
واضح رہے کہ گرونانک کا مسلمان ہونا یقینی طور پر معلوم نہیں؛ اس لیے اس کے مزار پر جا کر فاتحہ پڑھنا یا مغفرت کی دعا کرنا جائز نہیں۔
قرآن کریم میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
"مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ". [التوبة: 113]
ترجمہ: "پیغمبر کو اور دوسرے مسلمانوں کو جائز نہیں کہ مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا مانگیں اگرچہ رشتہ دار ہی (کیوں نہ) ہوں اس امر کے ظاہر ہوجانے کے بعد کہ یہ لوگ دوزخی ہیں"۔ (از بیان القرآن)
مرقاة الفاتيح میں ہے:
"و عن أبي هريرة قال: زار النبي صلى الله عليه وسلم قبر أمه فبكى وأبكى من حوله، فقال: " استأذنت ربي في أن أستغفر لها فلم يؤذن لي، واستأذنته في أن أزور قبرها فأذن لي، فزوروا القبور فإنها تذكر الموت". رواه مسلم.
(فقال: استأذنت ربي في أن أستغفر فلم يؤذن لي) قال ابن الملك: لأنها كافرة، و الاستغفار للكافرين لايجوز؛ لأنّ الله لن يغفر لهم أبدًا."
(باب زيارة القبور: 4/ 1264، ط: دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144406101117
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن