ایک شخص کا انتقال ہوگیا ان کے ورثاء میں کوئی اولاد نہیں ہے ،ایک بیوہ ہے ،دو شادی شدہ ہمشیرہ ہیں ،اور ایک والدہ ہیں ،مرحوم سرکار ی ملازم تھے، جن کے سات قسم کے فنڈز ہیں ،اب پوچھنا یہ ہے کہ مرحوم کے کون کون سے فنڈز میں میراث جاری ہوگی۔
سات قسم کے فنڈز درج ذیل ہیں :
1- پنشن فنڈ: Pension fund
2-جی پی فنڈ: GP Fund
3-لیو ان کیشمنٹ: Leave Encashment
4-مالی امداد:Arrear pay and allowance
5-فنانس اسسٹنٹ:Financial Assistance
6-Retire Benefit and death compensation
7-یبنوولنٹ فنڈ:Benevolent Fond
1-پنشن فنڈ Pension fund پینشن ادارے کی طرف سے عطیہ اور ہبہ ہوتا ہے، لہذا پنشن کی رقم ادارہ جس کے نام پر جاری کرے وہی اس کا مالک ہوتا ہے اس میں وراثت جاری نہیں ہوگی۔
2-جی پی فنڈ GP Fund کے نام پر ادارہ ملازمین کی تنخواہ سے ہر ماہ کچھ نا کچھ فیصد رقم منہا کرکے انویسٹ کرتا ہےاور ملازمین کو ریٹائرمنٹ کے وقت اضافہ کے ساتھ یہ رقم لوٹائی جاتی ہے، اس کی دو صورتیں ہیں، ہر ماہ جو کٹوتی ہوتی ہے وہ یا تو اختیاری ہوگی یا تو جبری۔
اختیاری کٹوتی کا حکم: اس صورت کا حکم یہ ہے کہ مرحوم نے اپنی تنخواہوں سے جتنی کٹوتی کرائی ہے اتنی ہی جمع شدہ رقم اور جتنی رقم ادارے نے ابتدا میں اپنی طرف سے ملائی تھی وہ لے سکتے ہیں، ان دونوں رقموں کو انویسٹ کرکے جو رقم حاصل ہوئی ہے وہ زائد رقم لینا شرعاًجائز نہیں ہے ؛ کیوں کہ اس صورت میں انہوں اپنے اختیار سے کٹوتی کروائی تھی، گویا وہ اپنی جمع شدہ رقم کو سودی انویسٹمنٹ میں صرف کرنے پر راضی تھے، لہٰذا یہ اضافہ لینا ان کے لیے جائز نہیں تھا؛ کیوں کہ سودی معاملے پر رضامندی بھی ناجائز ہے، چناں چہ اس صورت میں اب ورثاء کے لیے اس مد میں ملنے والی رقم میں سے اصل رقم لینا جائز ہے ، زیادتی کا لینا ناجائز ہے، لہذا اصل رقم تمام ورثاء کے درمیان میراث کے شرعی قواعد کے مطابق تقسیم ہوگی ۔
جبری کٹوتی کا حکم:اس صورت کا حکم یہ ہے کہ یہ فنڈادارے کی طرف سے ملازمین کے لیے تبرع و انعام ہوتا ہے اور ملازمین کے لیے یہ لینا شرعاً جائز ہوتا ہے ، اس لیے کہ ملازم نے اپنی رضامندی سے رقم جمع نہیں کروائی، ادارہ اس سے جس طرح بھی نفع کمائے ملازم اس کا ذمہ دار نہیں ہوتا، اور ملازم کو جب تک یہ رقم مل نہ جائے تب تک وہ اس کا قانوناً وشرعاً مالک نہیں ہوتا لہٰذا اس کے لیے اضافی رقم لینا جائز ہوگا، چناں اس صورت میں جی پی فنڈ کے مجموعے پر میراث جاری ہوگی، اور اس کو میراث کے ضابطہ کے مطابق تقسیم کیا جائے گا،جب کہ عام طور پر سرکاری ملازمین کا جی پی فنڈجبری ہی ہوتا ہے ،اس صورت میں پورا فنڈ قابلِ تقسیم ہوتا ہے ۔
3-لیو ان کیشمنٹ (Leave Encashment):لیو ان کیشمنٹ کی رقم دراصل ملازم کی ان تعطیلات کا معاوضہ ہوتی ہے جو تعطیلات(تنخواہ کے ساتھ) ملازم کا حق تھا، مگر اس نے رخصت لینے کی بجائے ان تعطیلات میں بھی کام کیا تو ادارے کی طرف سے ان ایام کی تنخواہ بھی ملازم کو ریٹارمنٹ کے بعد دی جاتی ہے،اس فنڈ میں ملنے والی رقم میں میراث جاری ہوگی ۔
4-مالی امداد Arrear pay and allowance یہ فنڈادارے کی طرف سے عطیہ اور ہبہ ہوتا ہے،اور یہ اسی کا ہوتا ہے جسے دینے والا دیتا ہے ؛ مرحوم کے انتقال پر مالی امدادادارہ ورثاء میں سے جس کے نام پر جاری کرے گا، وہی اس امداد کا مالک ہو گا، اور اس کو میراث میں تقسیم نہیں کیا جاۓ گا۔
5-فنانس اسسٹنٹFinancial Assistance یہ فنڈ بھی متعلقہ ادارے کی طرف سے جس کو ملے اس کی ملکیت شمار ہوتا ہے،مرحوم کے ترکہ میں شمار ہوکر تمام ورثاء میں تقسیم نہیں ہوتا۔
6- حکومتی ملازم جب ریٹائر ہوتا ہے یا انتقال کرجاتا ہے تو اس کو گریجویٹی فنڈ کے نام سے کچھ رقم بطورِ مراعات ملتی ہے ،یہ رقم تنخواہ کا حصہ نہیں ہوتی،بلکہ ادارہ کی طرف سے ملازم کے لیے انعام و عطیہ ہوتی ہے، یہ رقم ریٹائرمنٹ کے وقت سے ہی دو حصوں میں تقسیم کر کے دی جاتی ہے،اس میں سےکچھ رقم فورًا ملازم کو دے دی جاتی ہے جسے" گریجویٹی" کہا جاتا ہے اور وہ ملازم کی ملکیت ہی شمار کی جاتی ہےاورملازم کی وفات کےبعداس کی وراثت میں تقسیم ہوتی ہے، لیکن اگر مذکورہ رقم ادارہ کی طرف سے ملازم کی وفات کے بعد ملے تو ایسی صورت میں ادارہ یہ رقم جس شخص کو نامزد کرکے دے وہی اس رقم کا حق دار ہوتا ہے،اس صورت میں یہ رقم وراثت میں تقسیم نہیں ہوتی ہے۔
7-یبنوولنٹ Benevolent Fond فنڈ ادارے کی طرف سے عطیہ اور ہبہ ہوتا ہے،اور یہ اسی کا ہوتا ہے جسے دینے والا دیتا ہے ؛ اس لیے یہ فنڈ ورثاء میں سے اسی کا ہو گا جس کو ادارہ نامزد کرکےدے گا، اس میں بھی میراث جاری نہیں ہوگی۔
دیکھیے عدالتی فیصلے :ازمفتی تقی عثمانی ،ج:2، ص:205۔۔۔217، ط:ادارہ اسلامیات،لاہور۔کراچی
بدائع الصنائع میں ہے:
"لأن الإرث إنما يجري في المتروك من ملك أو حق للمورث على ما قال «- عليه الصلاة والسلام - من ترك مالا أو حقا فهو لورثته»ولم يوجد شيء من ذلك فلا يورث ولا يجري فيه التداخل؛ لما ذكرنا، والله سبحانه وتعالى أعلم."
(کتاب الحدود ، فصل فی شرائط جواز اقامة الحدود ج:7، ص :57 ط : دار الکتب العلمیة)
درر الحكام شرح مجلة الأحكام میں ہے:
"المادة (2 9 0 1) - (كما تكون أعيان المتوفى المتروكة مشتركة بين وارثيه على حسب حصصهم كذلك يكون الدين الذي له في ذمة آخر مشتركا بين وارثيه على حسب حصصهم) كما تكون أعيان المتوفى المتروكة مشتركة بين - وارثيه، على حسب حصصهم الإرثية بموجب علم الفرائض أو بين الموصى لهم بموجب أحكام المسائل المتعلقة بالوصية كذلك يكون الدين الذي له في ذمة آخر مشتركا بين ورثته على حسب حصصهم الإرثية أو بين الموصى لهم بموجب الوصية لأن هذا الدين ناشئ عن سبب واحد الذي هو الإرث أو الوصية."
(الکتاب العاشر الشرکات،الباب الاول،ج:3، ص:50، ط:رشیدیة)
تبيين الحقائقمیں ہے:
" قال في الهداية الأجرة لا تجب بالعقد وتستحق بإحدى معان ثلاث إما بشرط التعجيل أو بالتعجيل من غير شرط أو باستيفاء المعقود عليه اهـ قوله لا تجب بالعقد أي لا يجب أداؤها وتسليمها بمجرد العقد أما نفس الوجوب فثابت بنفس العقد. اهـ
(کتاب الإجارۃ، ج:5، ص:106، ط:دار الكتاب الإسلامي)
الفقه الإسلامي وأدلتهمیں ہے:
"الإرث لغة: بقاء شخص بعد موت آخر بحيث يأخذ الباقي ما يخلفه الميت. وفقهاً: ما خلفه الميت من الأموال والحقوق التي يستحقها بموته الوارث الشرعي."
(الفصل الأول، تعریف علم المیراث،10/ 7697،ط:دار الفکر)
امداد الفتاوی میں ہے:
’’چوں کہ میراث مملوکہ اموال میں جاری ہوتی ہے اور یہ وظیفہ محض تبرع واحسانِ سرکار ہے، بدون قبضہ کے مملوک نہیں ہوتا، لہذا آئندہ جو وظیفہ ملے گا اس میں میراث جاری نہیں ہوگی، سرکار کو اختیار ہے جس طرح چاہیں تقسیم کردے۔‘‘
(کتاب الفرائض، عنوان: عدم جریان میراث در وظیفہ سرکاری تنخواہ،ج4،ص343، ط: دارالعلوم)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144512101092
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن