کیا ہم جرمنی میں اپنی ضرورت یا رہنے کے لیے بینک سے قسط پر گھر لے سکتے ہیں؟
بینک کا نظام کی بنیاد سود پر ہے اور بینک سے قرضہ لے کر گھر کی خریداری اور قرضہ کی اصل رقم سے زائد رقم کی ادائیگی سود ہے؛ لہٰذا سود پر مشتمل ہونے کی وجہ سے بینک سے قسطوں پر گھر لینا شرعًا جائز نہیں ہے، نیز ذاتی مکان خریدنا اضطراری ضرورت نہیں ہے، بلکہ کرایہ وغیرہ پر رہ کر، یا کسی سے قرض لے کر بھی یہ ضرورت پوری کی جاسکتی ہے، دوسری طرف سود کا معاملہ انتہائی خطرناک ہے، سود کا معاملہ کرنے والوں کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کا اعلان ہے، بے شمار قرآنی آیات اوراحادیث میں اس کی شناعت اور قباحت ذکر ہوئی ہے، لہذا وہاں کے مسلمانوں کو چاہیے کہ بینک سے قرضہ لے کر گھر خریدنے کے بجائے شریعتِ اسلامیہ کے اصولوں کے مطابق جائز طریقہ اختیار کرنے کی کوشش کریں، اور یہ کوشش کریں کہ بینک کے علاوہ کسی سے غیر سودی قرض مل جائے، اگر یہ نہ ہوسکے اور کرایہ کے مکان میں کفایت شعاری کے ساتھ رہ سکتے ہوں تو ایساہی کیجیے اور ساتھ ساتھ مکان کے لیے رقم کا انتظام کرتے رہیے، جب انتظام ہوجائے تو یک مشت مکان خرید لیجیے۔
اعلاء السنن میں ہے:
قال ابن المنذر: أجمعوا علی أن المسلف إذا شرط علی المستسلف زیادةً أو هديةً، فأسلف علی ذلك إن أخذ الزیادة علی ذلك ربا.
(14/513، باب كل قرض جر منفعة، كتاب الحوالة، ط: إدارة القرآن)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144110200137
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن