بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گردہ اپنے بھائی کو ہدیہ کرنے کا حکم


سوال

میرے بھائی کے دونوں گردے خراب ہیں، میں اسے اپنا ایک گردہ دینا چاہتا ہوں، میرا بھائی ڈائلیسس کا مریض ہے، جو ہفتے میں دو بار ہوتی ہے جوکہ نہایت تکلیف دہ عمل ہے، کیا قرآن و سنت کی روشنی میں اپنے کسی عضو کو عطیہ کرنے کی ممانعت ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  انسانی عضو  کا  (خواہ زندہ کا ہو یا مردہ کا)   دوسرے انسان کے جسم میں استعمال (معاوضہ کے ساتھ ہو یابغیرمعاوضہ کے)مندرجہ ذیل وجوہات کی بنیاد پر  جائز نہیں ہے:

1:       کسی انسان کے جسم سے عضو کے حصول کے لیے انسانی  جسم کی چیر پھاڑ کی جاتی ہے جو کہ ”مُثلہ“  ہے ، اور مثلہ شریعت میں جائز  نہیں ہے۔

2:    کسی چیز کو ہبہ(گفٹ) کرنے یا عطیہ کے طور پر کسی کو دینے کے لیے یہ شرط ہے کہ  وہ چیز  مال ہو ، اور دینے  والے کی ملکیت میں ہو ، اور یہی شرط وصیت کے لیے بھی ہے، انسان کو اپنے اعضاء میں منفعت کا حق  تو حاصل ہے، مگر حقِ ملکیت حاصل نہیں ہے، جن اموال و منافع پر انسان کو مالکانہ حق  حاصل نہ ہو،   انسان  ان اموال یا منا فع کی مالیت کسی دوسرے انسان کو منتقل نہیں کرسکتا۔

3:    انسانی اعضاء و جوارح انسان کے پاس امانت ہیں  اور انسان ان کا نگران اور محافظ ہے، اور امین کو  ایسے تصرفات کا اختیار نہیں ہوتا  جس کی اجازت امانت رکھنے والے نے نہ دی ہو۔

4:    انسان قابلِ احترام اور مکرّم ہے، اس کے اعضاء میں سے کسی عضو کو  اس کے بدن سے الگ کرکے  دوسرے انسان کو دینے میں انسانی تکریم کی خلاف ورزی لازم آتی ہے، یہی وجہ ہے کہ فقہائےکرام نے علاج ومعالجہ  اور شدید مجبوری کے موقع پر بھی انسانی اعضاء کے استعمال کو ممنوع قرار دیا ہے، نیز جس طرح کسی زندہ آدمی کے کسی عضو کو لے کر دوسرے جسم میں لگانا درست نہیں ہے، اسی طرح کسی مردہ انسان کے عضو  کو دوسرے کے جسم میں لگانا بھی جائز نہیں ہے۔

یعنی آدمی کے تمام اعضاء سے فائدہ اٹھانے کی حرمت اس کی تکریم و احترم کے پیشِ نظر ہے؛  تاکہ جس ہستی کو اللہ تعالی نے مکرّم ومحترم بنایا ہے،  لوگ اس کے اعضاء و جوارح کو استعمال کرنے کی جسارت نہ کریں۔

مذکورہ بالا تفصیل کی رو سے یہ بات واضح ہوگئی کہ  انسانی اعضاء کی پیوند کاری شرعًا  جائز نہیں ہے ؛  لہذا  سائل کا اپنا گردہ اپنے بھائی  کو  دینا جائز نہیں ہے ، بلکہ شرعًا گناہ ہےا، اور  اس وجہ سے اس کی موت واقع ہوجائے تو یہ شخص عند اللہ  مأجور  نہیں ہوگا، بلکہ گناہ گار  ہوگا۔

حدیث  شریف  میں  ہے: 

"عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا بَعَثَ جُيُوشَهُ قَالَ: «اخْرُجُوا بِسْمِ اللَّهِ تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ، لَاتَغْدِرُوا، وَ لاتَغُلُّوا، وَ لاتُمَثِّلُوا، وَ لاتَقْتُلُوا الْوِلْدَانَ، وَ لا أَصْحَابَ الصَّوَامِعِ»."

(مسند احمد،3/218، ط؛دارالحدیث بیروت) 

"فتاوی عا لمگیری" میں ہے:

"وَ أَمَّا مَا يَرْجِعُ إلَى الْوَاهِبِ، فَهُوَ أَنْ يَكُونَ الْوَاهِبُ مِنْ أَهْلِ الْهِبَةِ، وَكَوْنُهُ مِنْ أَهْلِهَا أَنْ يَكُونَ حُرًّا عَاقِلًا بَالِغًا مَالِكًا لِلْمَوْهُوبِ حَتَّى لَوْ كَانَ عَبْدًا أَوْ مُكَاتَبًا أَوْ مُدَبَّرًا أَوْ أُمَّ وَلَدٍ أَوْ مَنْ فِي رَقَبَتِهِ شَيْءٌ مِنْ الرِّقِّ أَوْ كَانَ صَغِيرًا أَوْ مَجْنُونًا أَوْ لَايَكُونُ مَالِكًا لِلْمَوْهُوبِ لَايَصِحُّ، هَكَذَا فِي النِّهَايَةِ. وَ أَمَّا مَا يَرْجِعُ إلَى الْمَوْهُوبِ فَأَنْوَاعٌ، مِنْهَا: أَنْ يَكُونَ مَوْجُودًا وَقْتَ الْهِبَةِ فَلَايَجُوزُ هِبَةُ مَا لَيْسَ بِمَوْجُودٍ وَقْتَ الْعَقْدِ ... و مِنْهَا: أَنْ يَكُونَ مَالًا مُتَقَوِّمًا فَلَاتَجُوزُ هِبَةُ مَا لَيْسَ بِمَالٍ أَصْلًا كَالْحُرِّ وَ الْمَيْتَةِ وَ الدَّمِ وَصَيْدِ الْحَرَمِ وَ الْخِنْزِيرِ وَ غَيْرِ ذَلِكَ، وَ لَا هِبَةُ مَا لَيْسَ بِمَالٍ مُطْلَقٍ كَأُمِّ الْوَلَدِ وَ الْمُدَبَّرِ الْمُطْلَقِ وَ الْمُكَاتَبِ، وَ لَا هِبَةُ مَا لَيْسَ بِمَالٍ مُتَقَوِّمٍ كَالْخَمْرِ، كَذَا فِي الْبَدَائع."

(4 / 374، کتاب الھبة، ط؛رشیدیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وَ شَرَائِطُهَا: كَوْنُ الْمُوصِي أَهْلًا لِلتَّمْلِيكِ) فَلَمْ تَجُزْ مِنْ صَغِيرٍ وَمَجْنُونٍ وَمُكَاتَبٍ إلَّا إذَا أَضَافَ لِعِتْقِهِ كَمَا سَيَجِيءُ (وَ عَدَمُ اسْتِغْرَاقِهِ بِالدَّيْنِ) لِتَقَدُّمِهِ عَلَى الْوَصِيَّةِ كَمَا سَيَجِيءُ. (وَ) كَوْنُ (الْمُوصَى لَهُ حَيًّا وَقْتَهَا) تَحْقِيقًا أَوْ تَقْدِيرًا لِيَشْمَلَ الْحَمْلَ الْمُوصَى لَهُ فَافْهَمْهُ، فَإِنَّ بِهِ يَسْقُطُ إيرَادُ الشُّرُنْبُلَالِيُّ (وَ) كَوْنُهُ (غَيْرَ وَارِثٍ) وَقْتَ الْمَوْتِ (وَ لَا قَاتِلٍ) وَ هَلْ يُشْتَرَطُ كَوْنُهُ مَعْلُومًا. قُلْت: نَعَمْ كَمَا ذَكَرَهُ ابْنُ سُلْطَانٍ وَ غَيْرُهُ فِي الْبَابِ الْآتِي (وَ) كَوْنُ (الْمُوصَى بِهِ قَابِلًا لِلتَّمَلُّكِ بَعْدَ مَوْتِ الْمُوصِي)."

(6/649، کتاب الوصایا،سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وَ أَمَّا حُكْمُهَا فَوُجُوبُ الْحِفْظِ عَلَى الْمُودَعِ وَ صَيْرُورَةُ الْمَالِ أَمَانَةً فِي يَدِهِ وَ وُجُوبُ أَدَائِهِ عِنْدَ طَلَبِ مَالِكِهِ، كَذَا فِي الشُّمُنِّيِّ". 

(4/338، کتاب الودیعة، ط؛رشیدیة)

شرح سیر الکبیر میں ہے:

"وَ الْآدَمِيُّ مُحْتَرَمٌ بَعْدَ مَوْتِهِ عَلَى مَا كَانَ عَلَيْهِ فِي حَيَاتِهِ. فَكَمَا يَحْرُمُ التَّدَاوِي بِشَيْءٍ مِنْ الْآدَمِيِّ الْحَيِّ إكْرَامًا لَهُ فَكَذَلِكَ لَايَجُوزُ التَّدَاوِي بِعَظْمِ الْمَيِّتِ. قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَسْرُ عَظْمِ الْمَيِّتِ كَكَسْرِ عَظْمِ الْحَيِّ»." 

(شرح السیر الکبیر(1 /89)

 "فتاوی ہندیہ " میں ہے:

"الِانْتِفَاعُ بِأَجْزَاءِ الْآدَمِيِّ لَمْ يَجُزْ، قِيلَ: لِلنَّجَاسَةِ، وَ قِيلَ: لِلْكَرَامَةِ، هُوَ الصَّحِيحُ، كَذَا فِي جَوَاهِرِ الْأَخْلَاطِيِّ". 

(5 / 354، الباب الثامن عشر فی التداوی والمعالجات، ط: رشیدیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100333

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں