بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گردے کا transplant کروانا جائز نہیں


سوال

ایک مریض کے گردے خراب ہوں اور ڈاکٹر Transplant کروانا چاہتے ہوں تو کیا transplant کی اجازت شریعت میں موجود ہے؟ مکمل تفصیل سے آگاہ کریں

جواب

واضح رہے کہ  انسانی عضو  کا  (خواہ زندہ کا ہو یا مردہ کا)   دوسرے انسان کے جسم میں استعمال (معاوضہ کے ساتھ ہو یابغیرمعاوضہ کے)مندرجہ ذیل وجوہات کی بنیاد پر  جائز نہیں ہے:

1:       کسی انسان کے جسم سے عضو کے حصول کے لیے انسانی  جسم کی چیر پھاڑ کی جاتی ہے جو کہ ”مُثلہ“  ہے ، اور مثلہ شریعت میں جائز  نہیں ہے۔

2:    کسی چیز کو ہبہ(گفٹ) کرنے یا عطیہ کے طور پر کسی کو دینے کے لیے یہ شرط ہے کہ  وہ چیز  مال ہو ، اور دینے  والے کی ملکیت میں ہو ، اور یہی شرط وصیت کے لیے بھی ہے، انسان کو اپنے اعضاء میں منفعت کا حق  تو حاصل ہے، مگر حقِ ملکیت حاصل نہیں ہے، جن اموال و منافع پر انسان کو مالکانہ حق  حاصل نہ ہو،   انسان  ان اموال یا منا فع کی مالیت کسی دوسرے انسان کو منتقل نہیں کرسکتا۔

3:    انسانی اعضاء و جوارح انسان کے پاس امانت ہیں  اور انسان ان کا نگران اور محافظ ہے، اور امین کو  ایسے تصرفات کا اختیار نہیں ہوتا  جس کی اجازت امانت رکھنے والے نے نہ دی ہو۔

4:    انسان قابلِ احترام اور مکرّم ہے، اس کے اعضاء میں سے کسی عضو کو  اس کے بدن سے الگ کرکے  دوسرے انسان کو دینے میں انسانی تکریم کی خلاف ورزی لازم آتی ہے، یہی وجہ ہے کہ فقہائےکرام نے علاج ومعالجہ  اور شدید مجبوری کے موقع پر بھی انسانی اعضاء کے استعمال کو ممنوع قرار دیا ہے، نیز جس طرح کسی زندہ آدمی کے کسی عضو کو لے کر دوسرے جسم میں لگانا درست نہیں ہے، اسی طرح کسی مردہ انسان کے عضو  کو دوسرے کے جسم میں لگانا بھی جائز نہیں ہے۔

یعنی آدمی کے تمام اعضاء سے فائدہ اٹھانے کی حرمت اس کی تکریم و احترم کے پیشِ نظر ہے؛  تاکہ جس ہستی کو اللہ تعالی نے مکرّم ومحترم بنایا ہے،  لوگ اس کے اعضاء و جوارح کو استعمال کرنے کی جسارت نہ کریں۔

مذکورہ بالا تفصیل کی رو  سے یہ بات واضح ہوگئی کہ  انسانی اعضاء  کی پیوند کاری  (transplant) شرعًا  جائز نہیں ہے ؛  لہذا مذکورہ مریض کے لیےگردہ کاtransplantکروانا جائز نہیں ہے ، بلکہ شرعًا گناہ ہے۔

حدیث شریف میں ہے: 

"عن ابن عباس قال: كان رسول ال له-صلي الله عليه وسلم- إذا بعث جيوشه قال: "اخرجوا بسم الله، تقاتلون في سبيل الله، من كفر بالله، لا تغدروا، ولا تغلوا، ولا تمثلوا، ولا تقتلوا الولدان، ولاأصحاب ‌الصوامع."

 (مسند أحمد،من مسند بني هاشم،3/ 218 ،ط:دار الحديث)

سنن أبي داود میں ہے:

"عن أبي واقد، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: ما قطع من البهيمة وهي حية فهي ميتة."

(كتاب الصيد،باب في صيد قطع منه قطعة،480/4 ،ط:دار الرسالة العالمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وأما ما يرجع إلى الواهب فهو أن يكون الواهب من أهل الهبة، وكونه من أهلها أن يكون حرا عاقلا بالغا مالكا للموهوب حتى لو كان عبدا أو مكاتبا أو مدبرا أو أم ولد أو من في رقبته شيء من الرق أو كان صغيرا أو مجنونا أو لا يكون مالكا للموهوب لا يصح، هكذا في النهاية. وأما ما يرجع إلى الموهوب فأنواع منها أن يكون موجودا وقت الهبة فلا يجوز هبة ما ليس بموجود وقت العقد........ ومنها أن يكون مالا متقوما فلا تجوز هبة ما ليس بمال أصلا كالحر والميتة والدم وصيد الحرم والخنزير وغير ذلك ولا هبة ما ليس بمال مطلق كأم الولد والمدبر المطلق والمكاتب ولا هبة ما ليس بمال متقوم كالخمر، كذا في البدائع."

 (كتاب الهبة ،الباب الأول تفسير الهبة وركنها وشرائطها وأنواعها وحكمها،4/ 374،ط:رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وشرائطها كون الموصي أهلا للتمليك) فلم تجز من صغير ومجنون ومكاتب إلا إذا أضاف لعتقه كما سيجيء (وعدم استغراقه بالدين) لتقدمه على الوصية كما سيجيء (و) كون (الموصى له حيا وقتها) تحقيقا أو تقديرا ليشمل الحمل الموصى له فافهمه فإن به يسقط إيراد الشرنبلالي (و) كونه (غير وارث) وقت الموت (ولا قاتل) وهل يشترط كونه معلوما. قلت: نعم كما ذكره ابن سلطان وغيره في الباب الآتي (و) كون (الموصى به قابلا للتملك بعد موت الموصي)..."

(6 /649، كتاب الوصایا،ط:سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وأما حكمها فوجوب الحفظ على المودع وصيرورة المال أمانة في يده ووجوب أدائه عند طلب مالكه، كذا في الشمني."

( کتاب الودیعة،4 /338، ط:رشیدية)

فتاوی ہندیہ  میں ہے:

"‌الانتفاع بأجزاء الآدمي لم يجز قيل للنجاسة وقيل للكرامة هو الصحيح كذا في جواهر الأخلاطي."

(كتاب الكراهية ،الباب الثامن عشر في التداوي والمعالجات،354/5،  ط: رشیدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503101423

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں