بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گردے خراب ہونے سے مرنے والا اخروی شہید ہے


سوال

میری والدہ محترمہ نومبر میں وفات پاگئی ہیں۔ انکو گزشتہ 25 سے 30 سال سے شوگر تھی اور انکے گردے خراب ہوگئے تھے اور وہ آخری دنوں میں شدید درد اور تکلیف میں مبتلا تھیں۔ انکو نہ چاہتے ہوئے بھی آخری رات گھر والوں نے ڈائلاسسز کروانے کے لئے راضی ہوئے اور ڈائلاسسز کے دوران ہی وفات پا گئیں۔ میرا پوچھنا یہ ہے کہ کیا میری پیاری والدہ گردوں اور پھیپھڑوں اور شوگر کی مریض تھیں اور ہر وقت انکا خون وغیرہ نکالا جاتا تھا اور وہ ڈائلاسسز جو کہ خون کی صفائی ہوتی ہے کہ دوران فوت ہوئیں۔ کیا وہ شہادت کے مرتبہ پر فائز ہوئی ہیں ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں آپ کی والدہ  کے گردہ خراب ہوگئے تھے، اس لیے وہ شہید حکمی میں سے ہیں یعنی اس کو شہادت کا ثواب ملے گا۔

اور شہید حکمی آخرت کے اعتبار سے شہید ہوتا ہے، اس لیے اسے غسل اور کفن دیاجائے گا۔

ابوداؤد میں ہے:

"عن عتيك بن الحارث بن عتيك -وهو جد عبد الله بن عبد الله أبو أمه- أنه أخبره أن جابر بن عتيك أخبره: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم جاء يعود عبد الله بن ثابت، فوجده قد غلب، فصاح به رسول الله صلى الله عليه وسلم فلم يجبه، فاسترجع رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال: "غلبنا عليك يا أبا الربيع" فصاح النسوة وبكين، فجعل ابن عتيك يسكتهن، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "دعهن، فإذا أوجب فلا تبكين باكية"، قالوا: وما الوجوب يا رسول الله؟ قال: "الموت"،قالت ابنته: والله! إن كنت لأرجو أن تكون شهيدًا؛ فإنك قد كنت قضيت جهازك، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله قد أوقع أجره على قدر نيته، وما تعدون الشهادة؟ " قالوا: القتل في سبيل الله تعالى، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "الشهادة سبع سوى القتل في سبيل الله: المطعون شهيد، والغرِق شهيد، وصاحب ذات الجنب شهيد، والمبطون شهيد، وصاحب الحريق شهيد، والذي يموت تحت الهدم شهيد، والمرأة تموت بجُمع شهيد."

(باب ما جاء في فضل من مات في الطاعون (5/ 27) ،ط. دار الرسالة العالمية)

المعجم الکبیر للطبرانی میں ہے:

"عن سلمان قال: أتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم بالزكاة ثلاث مرار، فقال: «ما تعدون الشهيد فيكم؟» قالوا: الذي يقتل في سبيل الله، قال: «إن شهداء أمتي إذن لقليل، القتل في سبيل الله شهادة، والطاعون شهادة، والنفساء شهادة، والحرق شهادة، والغرق شهادة، والسلّ شهادة، والبطن شهادة»."

(6/ 247، ط: مكتبة ابن تيمية )

التنقیح فی شرح مشکاة المصابیح میں ہے:

"وقوله: (والمبطون) قيل: المراد به من مات من إسهال، أو استسقاء وانتفاخ بطن، أو ممن يشتكي بطنه، أو من يموت بداء بطنه مطلقًا، أقول: وإنما كان بهذه المعاني من الشهداء لشدتها وكثرة أَلَمها."

(كتاب الجنائز، باب عيادة المريض وثواب المرض ، 4/ 27،ط. دار النوادر)

فتح الباري لابن الحجر میں ہے: 

"هو(ذات الجنب) ورم حارّ يعرض في الغشاء المستبطن للأضلاع، وقد يطلق على ما يعرض في نواحي الجنب من رياح غليظة تحتقن بين الصفاقات والعضل التي في الصدر والأضلاع فتحدث وجعا، فالأول: هو ذات الجنب الحقيقي الذي تكلم عليه الأطباء، قالوا: ويحدث بسببه خمسة أعراض: الحمى، والسعال، والنخس، وضيق النفس،والنبض المنشاري. ويقال لذات الجنب أيضًا: وجع الخاصرة، وهي من الأمراض المخوفة لأنها تحدث بين القلب والكبد وهي من سيء الأسقام."

(كتاب الطب، باب ذات الجنب (10/ 172)،ط. دار المعرفة ) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506101868

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں