اگر کسی کا کوئی سامان گم ہو گیا تھا یا کسی نے چھین لیا تھا بعد میں وہ کئی سال بعد اسے مل گیا تو اس پر سابقہ سالوں کی زکوٰۃ واجب ہو گی یا نہیں؟
زکاۃ واجب ہونے کے لیے مال کا نامی (حقیقتاً یا حکماً بڑھنے والا مال) ہونا ضروری ہے، اور مالِ نامی سے مراد سونا، چاندی، نقدی، مالِ تجارت اور سائمہ جانور ہیں ،وہ سامان جو استعمال کی نیت سے خریدا گیاہو ان پر زکوٰۃ لازم نہیں ہوتی ہے، البتہ اگر سامان خریدتے وقت تجارت کی نیت کی ہو تو پھر سامان پر مال تجارت ہونے کی وجہ سے زکوٰۃ لازم ہوگی، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ سامان اموال تجارت میں سے نہیں تھا تو اس پر زکوۃ لازم نہیں چاہے وہ مال گم ہواہو یانہیں ، اور اگر مذکورہ سامان اموال زکوٰۃ میں سے تھا اور وہ گم ہوگیاتھا یا کسی نے چھین لیاتھا تو اور بعد میں مل گیا تو اس عرصے (کہ جس عرصہ میں سامان مالك کے پاس نہیں تھا ) اس پر زکوٰۃ لازم نہیں ہوگی۔
فتح القدیر میں ہے:
"(الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنة ما كانت إذا بلغت قيمتها نصابا من الورق أو الذهب)
(قوله وتشترط نية التجارة) لأنه لما لم تكن للتجارة خلقة فلا يصير لها إلا بقصدها فيه، وذلك هو نية التجارة."
(كتاب الزكوة، باب المال،ج:2،ص:218،ط:دارالفكر)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنة ما كانت إذا بلغت قيمتها نصابا من الورق والذهب كذا في الهداية."
(کتاب الزکوۃ ،باب ثالث فصل ثانی ج:1 ص:179،ط:رشیدیہ)
بدائع الصنائع میں ہے:
"فلا تجب الزكاة في المال الضمار عندنا خلافا لهما.
وتفسير مال الضمار هو كل مال غير مقدور الانتفاع به مع قيام أصل الملك كالعبد الآبق والضال، والمال المفقود، والمال الساقط في البحر، والمال الذي أخذه السلطان مصادرة."
(كتاب الزكوة،فصل الشرائط التي ترجع الي المال،ج:2،ص:9،ط:دارالكتب العلميه)
المحیط البرھانی میں ہے:
"ومال الضمار كل مال بقي أصله في ملكه، ولكن زال عن يده زوالا يرجى عوده في الغالب، والأصل فيه أثر علي رضي الله عنه: لا زكاة في مال الضمار."
(كتاب الزكوة،ج:2،ص:309،ط:دارالكتب العلميه)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144407100545
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن