بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گناہوں سے نجات کا طریقہ


سوال

میں الحمد للّٰہ پانچ وقت کی نماز باجماعت تکبیر اولیٰ سے پڑھتا ہوں ،اور مسجد کے اعمال میں جڑتا ہوں، تبلیغ میں چار ماہ بھی لگے ہیں لیکن کچھ گناہ نہیں چھوٹ رہے، بہت کوشش بھی کرتا ہوں چھوڑنے کی جب گناہ کر رہا ہوتا ہوں اس وقت دل و دماغ میں خیال بھی آتے ہیں کہ غلط ہے گناہ ہوگا اور کچھ اس گناہ کے متعلق وعیدیں بھی یاد آتی ہیں، لیکن اسے اس وقت چھوڑنے پر قادر نہیں ہوتا ،اور جب گناہ سرزد ہو جاتا ہے تو تب پچھتاوا ہوتا ہے کہ نہیں کرنا چاہیے تھا؟ رہنمائی فرمائیں

جواب

حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ فرماتے ہیں کہ گناہ چھوڑنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ  جب کبھی گناہ کا صدور ہوجائے تو اس کے بعد فوراً دو رکعت نماز پڑھ کر توبہ کرلی جائے، اگر دوبارہ گناہ ہوجائے تو دوبارہ دو رکعت پڑھ کر توبہ کی جائے، اس عمل کو تسلسل کے ساتھ کیا جائے، چند ہی دنوں میں نفس گناہ سے باز آجائے گا، کیوں کہ نماز نفس پر بھاری ہے، نفس پر یہ بوجھ ڈالنے سے نفس کی اصلاح ہوجائے گی۔ لہذا اٹھتے، بیٹھتے، چلتے، پھرتے کثرت سے استغفار کریں، اور روزانہ دن یا رات میں کوئی ایک وقت مقرر کرکے اچھی طرح وضو کرکے تنہائی میں دو رکعت نماز، توبہ اور حاجت کی نیت سے پڑھ کر گڑگڑا کر اللہ تعالیٰ سے اپنے گزشتہ گناہوں کی معافی مانگیں، خوب روئیں، اگر رونا نہ آئے تو رونے کی کوشش کریں اور رونے جیسی شکل بنا لیں، اللہ تعالیٰ سے سچے دل سے دعا کریں کہ وہ آپ کو تمام گناہوں سے نجات دے دے، اور ساتھ ساتھ آئندہ گناہ نہ کرنے کا  پختہ عزم بھی کریں

نیز گناہوں سے معافی کے لیے سچی توبہ ضروری ہے،  جس کے تین رکن ہیں:

اول اپنے کیے پر ندامت اور شرم ساری، حدیث میں ارشاد ہے: "إنما التوبة الندم"  ”یعنی توبہ نام ہی ندامت کا ہے“۔

 دوسرا رکن توبہ کا یہ ہے کہ جس گناہ کا ارتکاب کیا ہے اس کو فوراً چھوڑ دے اور آئندہ کو بھی اس سے باز رہنے کا پختہ عزم و ارادہ کرے۔

تیسرا رکن یہ ہے کہ تلافی مافات کی فکر کرے، یعنی جو گناہ سر زد ہو چکا ہے اس کا جتنا تدارک اس کے قبضہ میں ہے اس کو پورا کرے، مثلاً نماز روزہ فوت ہوا ہے تو اس کو قضا کرے فوت شدہ نمازوں اور روزوں کی صحیح تعداد یاد نہ ہو، تو غور و فکر سے کام لے کر تخمینہ متعین کرے، پھر ان کی قضا  کرنے کا پورا اہتمام کرے، بیک وقت نہیں کر سکتا تو ہر نماز کے ساتھ ایک ایک نماز قضاءِ عمری کی پڑھ لیا کرے، ایسے ہی متفرق اوقات میں روزوں کی قضا  کا اہتمام کرے، فرض زکاۃ ادا نہیں کی تو گزشتہ زمانہ کی زکاۃ بھی یک مشت یا تدریجاً ادا کرے، کسی انسان کا حق لے لیا ہے تو اس کو واپس کرے، کسی کو تکلیف پہنچائی ہے تو اس سے معافی طلب کرے،  بندے کا حق اس کے معاف کیے بغیر معاف نہیں ہوسکتا،  حقوق العباد سے متعلق گناہوں سے توبہ کی تکمیل کے لیے یہ ضروری شرط ہے،لیکن اگر اپنے کیے پر ندامت نہ ہو، یا ندامت تو ہو مگر آئندہ کے لیے اس گناہ کو ترک نہ کرے، تو یہ توبہ نہیں ہے، گوہزار مرتبہ زبان سے توبہ توبہ کہا کرے۔(مستفاد مع تغییر معارف القرآن 2/342دارالعلوم کراچی)

جس آدمی کے لیے گناہوں کا ترک کرنا بہت مشکل ہوچکا ہو تو اسے چاہیے کہ کسی مستند صاحبِ نسبت  اللہ والے سے اپنا اصلاحی تعلق قائم کرے، ان کی صحبت میں وقت گزارے، خط و کتابت اور فون کے ذریعہ ان کو اپنے احوال سے مطلع کرتا رہے اور جو کچھ وہ کرنے کا کہیں، اس کو پابندی سے کرتا رہے، تو اس سے  انسان کے  لیے گناہوں کا چھوڑنا آسان ہوجاتا ہے۔(ماخوذ از ملفوظاتِ حکیم الامت، ج: 1، ص: 57، ط: ادارہ تالیفاتِ اشرفیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403102106

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں