بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گناہوں سے بچنا ہر حال میں ضروری ہے


سوال

 میں پاکستان سے باہر نوکری کرتا ہوں ،  شادی کو چار سال ہو گئے ہیں،   مجھے بیوی کی ضرورت ہوتی ہے ،  آپ کو پتہ ہے لڑکے کو لڑکی اور لڑکیوں کو لڑکے مل جاتے ہیں،  اللہ کی قسم میں بہت مجبور ہوں،  کبھی کبھی تو رات کو دور دشریف پڑھتا ہوں اس امید پر کہ آج رات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خواب میں آجائیں گے۔

آپ بتائیں اللہ تعالیٰ نے نہ ہم کو اپنے محبوب کے دور میں پیدا کیا،  اگر پیدا کیا ہوتا تو دل صرف عشقِ محمدصلی اللہ علیہ وسلم میں گرفتار ہوتا،  اب ہر طرف برائی ہی برائی ہے ،میں پاکستان آنا چاہتا ہوں تاکہ کوئی چھوٹا موٹا کاروبار شروع کر کے اپنا اور بیوی بچوں کا پیٹ پال سکوں ،  لیکن ہمارا معاشرتی نظام۔۔۔ جوائنٹ فیملی سسٹم کس کس کی ضروریات پوری کرے۔سیلری اتنی ہے کہ بیوی بچوں کو دوبئی  میں بہت مشکل سے رکھ سکتا ہوں ،  پھر پاکستان کچھ نہیں بھیج سکتا،  میں کسی کی برائی نہیں کرتا ، لیکن میرے دوست ہیں اور میرے ساتھ پاکستانی اور بھی کام کرتے ہیں،  اکثر غلط کام میں مبتلا ہیں،  کسی نے کو ئی فلپائن لڑکی کو گرل فرینڈز بنایا ہوا ہے تو کوئی مہینے میں ایک آدھ بار" مساج سنٹر" جاتے ہیں،  میرا بھی دل بہت کرتا ہے،  آخر انسان ہوں، اگر ایک بار چلا گیا تو ساری زندگی خراب ہو جائے گی، اگر اس طرح کی بات کسی دوست سے مشورہ کروں تو وہ یہ کہتے ہیں ہم بھی تو دوبی میں رہتے ہیں ، آپ کا پتہ نہیں کیوں دل نہیں لگتا۔اب کیا میں بھی منہ کالا کر لوں؟

 واللہ بہت مشکل ہے،  آج کل تو پاکستان میں ہر چیز ملتی ہے،  یہ تو پھر دوبئی  ہے ،آدھے کپڑے کیا ادھر تو بس نام کے کپڑے ڈالتے ہیں،  میرا کام بھی فیلڈ کاہے، ہر جگہ کا ماحول برداشت کرنا پڑتا ہے، ہر بار ہر روز یہ سوچتا ہوں،  کاش بیوی پاس ہو،  اب اگر دوسری شادی کر لوں تو پاکستان میں طوفان کھڑا ہو جائے گا،  اب بندہ کہاں  جائے؟ اتنا ایمان مضبوط نہیں ہے ،  بہت مشکل سے بچایا ہوا  ہوں،کاش میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں پیدا ہوتا ،یہ باتیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتاتا،  ان سے اپنی مشکل بیان کرتا، ان کو دیکھ کر میرا ایمان اور تازہ ہوجاتا،  اب تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی نہیں ہیں،  کدھر جائیں،  کس طرح اپنے ایمان کی حفاظت کروں۔

آپ مجھے مشورہ دیں کہ میں  پاکستان  آکر  کیا کروں؟ اور اس سارے مسئلے کا حل کیا  ہے؟    کوئی ذکر بھی بتا دیں کہ میں اپنے ایمان کی حفاظت کر سکوں۔

جواب

سائل کا گناہوں سے بچنے کا جذبہ قابل ِ قدر ہے،ہر مسلمان کے ذمہ لازم ہے کہ   ہر    حال میں گناہوں سے اپنے آپ کو بچائے ، قصداً گناہ کا ارتکاب جائز نہیں،لہذا  اگر سائل کے لیے دبئی میں  رہ کر گناہوں سے بچنا ممکن نہیں، بلکہ گناہ میں  مبتلا ہونے کا قوی  اندیشہ ہے، جیسا کہ سائل نے خود خدشہ ظاہر کیا ہے تو ایسی صورت میں سائل کے لیے اپنے وطن لوٹ آنا  ضروری ہے،البتہ  جب تک  کسی مجبوری کے باعث وہاں رہنا ناگزیر ہو  تو  سائل  کو چاہیے کہ چھٹی پر پاکستان آ کر اپنی بیوی کے پاس رہے اس طرح وقتاً فوقتاً آتا رہے تا کہ گناہ سے بچ سکے اور حتی الامکان غلط خیالات ،بری صحبت  ،تنہائی میں رہنا ،انٹرنیٹ کا غلط استعمال، بدنظری وغیرہ سے مکمل اجتناب کرےاور یہ خیال بار بار اپنے ذہن میں  لائے کہ اللہ تعالی مجھے ہر حال میں دیکھ رہے ہیں، ایک دن اللہ کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے کیے کا جواب دینا ہے  اور   حسبِ استطاعت روزے رکھے، نیز   اس کے ساتھ ساتھ کسی اللہ والے کی صحبت  کو لازم پکڑے، ان کی مجالس میں پابندی سے شریک ہونے کا اہتمام کرے۔ہر وقت پاکیزہ اور باوضو رہنے کا اہتمام کرے،  اور پانچ وقت نماز باجماعت کی پابندی کرے۔  کثرت سے اس دعا کو، بالخصوص ہر نماز کے بعد پڑھنے کا اہتمام کریں :

 "اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَسْئَلُكَ الْهُدٰی وَالتُّقٰی وَالْعَفَافَ وَالْغِنٰی۔"

نیز  کثرت  کے ساتھ   سید الاستغفار پڑھتے رہیں،  سید الاستغفار یہ ہے: 

"اللَّهُمَّ أنْتَ ربِّى لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، خلَقْتَنِى وَأنَا عَبْدُكَ، وَأنَا عَلَى عَهْدِك وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ، أعُوذُ بكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ وَأبُوءُ لَكَ بنِعْمَتِكَ عَلىَّ، وَأعْتَرِفُ بدنُوبِى فَاغْفِرْ لى ذُنُوبى، إنَّهُ لا يَغفرُ الذنوب إِلَّا أنْتَ"

ترجمہ: ’’اے اللہ تو ہی میرا رب ہے ، تیرے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں،تو نے مجھے پیدا کیا اور میں تیرا بندہ ہوں اور تیرے عہد اور وعدے پر قائم ہوں جس قدرطاقت رکھتا ہوں،میں نے جو کچھ کیا اس کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں،اپنے آپ پر تیری نعمت کا اقرار کرتا ہوں اور اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں،پس مجھے بخش دے کیوں کہ تیرے علاوہ کوئی گناہوں کو نہیں بخش سکتا،"

باقی دبئی میں  رہنا کوئی ضروری نہیں ہے، سائل پاکستان میں آکر  بھی  کوئی مناسب کاروبار اختیار کرکے اپنی ضروریاتِ زندگی کا انتظام کر سکتا ہے۔

اگر سائل کو جوائنٹ فیملی سے پریشانی ہے تو  ایک ساتھ رہنا کوئی ضروری نہیں ہے، سائل حکمت و بصیرت کے ساتھ  علیحدگی اختیار کر سکتا ہے اور اپنی بیوی بچوں کو الگ رکھ سکتا ہے،البتہ   والدین اگر ضرورت مند ہوں تو ان کی ضروریات کا خیال رکھنا سائل کی ذمہ داری ہوگی۔

قرآن كريم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: 

{وَذَرُوْا ظَاهِرَ الْاِثْمِ وَبَاطِنَهٗ  ۭاِنَّ الَّذِيْنَ يَكْسِبُوْنَ الْاِثْمَ سَيُجْزَوْنَ بِمَا كَانُوْا يَقْتَرِفُوْنَ     120}

ترجمہ: اور چھوڑ دو کھلا ہوا گناہ اور چھپا ہوا ، جو لوگ گناہ کرتے ہیں عنقریب سزا پاویں گے اپنے کئے کی ۔

تفسير النسفی  میں ہے: 

"والآية تدل على أن من لم يتمكن من إقامة دينه في بلد كما يجب وعلم أنه يتمكن من إقامته في غيره حقت عليه المهاجرة وفي الحديث من فر بدينه من أرض إلى أرض وإن كان شبراً من الأرض استوجبت له الجنة وكان رفيق أبيه إبراهيم ونبيه محمد صلى الله عليه وسلم۔"

(سورۃ النساء،  الآیۃ :97 ، ج: 1/ 388، ط: دار الكلم الطيب)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"قال: ويجبر الولد الموسر على نفقة الأبوين المعسرين مسلمين كانا، أو ذميين قدرا على الكسب، أو لم يقدرا۔"

(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر،الفصل الخامس في نفقة ذوي الأرحام: 1 / 564، ط: رشیدیہ )

فقط اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100365

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں