بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گناہوں سے توبہ کیسے کی جائے؟


سوال

 ایک پچاس سالہ آدمی جو مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہوا ہے ، اس کی ایک نماز بھی خشوع و خضوع سے ادا نہیں ، ہر قسم کے گناہ کبیرہ و صغیرہ اس سے سرزد ہوئے، حرام اتنا کھایا کہ معلوم نہیں کس کس سے کھایا، اور اللہ تعالی کے احکامات توڑتے توڑتے تھک گیا۔ اب وہ اپنے گناہوں سے صدق دل سے توبہ کر چکاہے، اسے سکون قلب کےلئے کیا کرنا چاہیے ؟ اور نماز ، حرام خوری الغرض ہر قسم کے گناہ کبیرہ و صغیرہ اور اس میں ایسے گناہ بھی شامل ہیں جو اس کو یاد بھی نہیں ، ان سب کا کفارہ اور حکم کیا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ فرائض ،واجبات اور دیگر اعمالِ حسنہ سے صغیرہ گناہ خود بخود معاف ہوجاتے ہیں،البتہ کبیرہ گناہوں کی معافی کے لیے توبہ شرط ہے،پھر وہ گناہ کبیرہ جن کا تعلق حقوق العباد سےہے، وہ بندے کے معاف کرنے سے معاف ہوتے ہیں ،جیسے کسی کا حق مارا ہوا ہے،تو اس کوحق واپس کرے یا صاحب حق سے اس کا  حق معاف کرالے،اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک چیز بھی نہ پائی جائے تو حقوق العباد صرف تو بہ سے معاف نہیں ہوتے ،اور دوسرے وہ گناہ جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہو مثلاً نماز کو وقت پرادانہیں کیا،بلاعذر کے روزہ چھوڑدیا،اس گناہ کی توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ ان کو لوٹایا جائے ،اور وقت پر ادانہ کرنے پر صدقِ دل سے توبہ کرے،نیز توبہ کی قبولیت کی شرائط میں سے یہ ہےکہ دل سے اپنے کیے پر ندامت ہو ،آئندہ نہ کرنے کا پختہ ارادہ ہو اور اگر کسی کا کوئی حق ذمہ میں  لاز م ہو تو اس کی ادائیگی یا معافی تلافی لازم ہے، محض توبہ کافی نہیں۔

صاحبِ حق کو اس کا حق ادا کردے، اگر صاحبِ حق معلوم نہ ہو اور نہ ہی اس کے ورثاء معلوم ہوں تو ان کی طرف سے اس قدر رقم (جتنی غصب کی تھی یا بطورِ رشوت لی تھی) ان کی طرف سے نیت کرتے ہوئے صدقہ کردے۔

قرآن کریم میں ہے:

"إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ." ﴿هود: ١١٤﴾

ترجمہ:

’’بے شک  نیک کام مٹادیتے ہیں برے کاموں کو۔‘‘(بیان القرآن)

معارف القرآن میں ہے:

’’اس آیت میں گنہگاروں سے مغفرت اور رحمت کا جو وعدہ فرمایا گیا ہے وہ دو چیزوں کے ساتھ مشروط ہے: ایک توبہ، دوسرے اصلاحِ عمل، توبہ کے معنی ہیں گناہ پر ندامت کے، حدیث میں ارشاد ہے: "إنماالتوبة الندم" یعنی ’’توبہ نام ہے ندامت کا‘‘ ، دوسرے آئندہ کے لیے اصلاح عمل، اس اصلاح عمل میں یہ بھی داخل ہے کہ آئندہ اس گناہ کے پاس نہ جانے کا عزم اور اہتمام کرے، اور یہ بھی شامل ہے کہ سابقہ گناہ سے جو حقوق کسی کے ضائع ہوئے ہیں ان کو ادا کرے، خواہ وہ حقوق اللہ ہوں یا حقوق العباد، حقوق اللہ کی مثال: نماز، روزہ، زکوۃ، حج وغیرہ فرائض میں کوتاہی کرنا ہے، اور حقوق العبا د کی مثال: کسی کے مال پر ناجائز قبضہ و تصرف کرنا، کسی کی آبرو پر حملہ کرنا، کسی کو گالی گلوچ کے ذریعے یا کسی دوسری صورت میں ایذا پہنچانا ہے، اس لیے تکمیلِ توبہ کے لیے جس طرح یہ ضروری ہے کہ گزشتہ گناہ پر ندامت کے ساتھ اللہ تعالی سے مغفرت طلب کرے اور آئندہ کے لیے اپنے عمل کو درست رکھے اس گناہ کے پاس نہ جائے، اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ جو نمازیں یا روزے غفلت سے ترک ہو گئے ہیں ان کی قضا کرے، جو زکوۃ نہیں دی وہ اب ادا کرے، قربانی، صدقۃ الفطر کے واجبات میں کوتاہی ہوئی ہے تو ان کو ادا کرے، حج فرض ہونے کے باوجود ادا نہیں کیا تو اب ادا کرے اور خود نہ کر سکے تو حج ِبدل کرائے اور اگر اپنے سامنے حج ِبدل اور دوسری قضاؤں کا پورا موقع نہ ملے تو وصیت کرے کہ اس کے وارث اس کے ذمہ عائد شدہ واجبات کا فدیہ یا حج ِبدل کا انتظام کر لیں، خلاصہ یہ ہے کہ اصلاح عمل کے لیے صرف آئندہ کا عمل درست کرلینا کافی نہیں، پچھلے فرائض و واجبات کو ادا کرنا بھی ضروری ہے، اسی طرح حقوق العباد میں اگر کسی کا مال ناجائز طور پر لیا ہے تو اس کو واپس کرے یا اس سے معاف کرائے اور کسی کو ہاتھ یا زبان سے ایذا پہنچائی ہے تو اس سے معاف کرائے، اور اگر اس سے معاف کرانا اختیار میں نہ ہو مثلا وہ مر جائے یا ایسی جگہ چلا جائے جس کا اس کو پتہ معلوم نہیں، تو اس کی تدبیر یہ ہے کہ اس شخص کے لیے اللہ تعالی سے دعائے مغفرت کرنے کا التزام کرے، اس سے امید ہے کہ صاحب حق راضی ہو جائے گا اور یہ شخص سبک دوش ہو جائے گا۔‘‘

(سورۂ انعام، آیت:55، ج:3، ص:339، 340، ط:مکتبہ معارف القرآن)

فتاوی شامی میں ہے:

"والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به ‌بنية ‌صاحبه."

(كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، 5/ 99، ط: سعيد)

الموسوعۃالفقہيۃ الكويتيۃ  ميں ہے:

"ذكر أكثر الفقهاء والمفسرين أن للتوبة أربعة شروط: الإقلاع عن المعصية حالا، والندم على فعلها في الماضي، والعزم عزما جازما أن لا يعود إلى مثلها أبدا. وإن كانت المعصية تتعلق بحق آدمي، فيشترط فيها رد المظالم إلى أهلها أو تحصيل البراءة منهم."

(التوبة، أركان وشروط التوبة، ج:14، ص: 120، 121)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506101997

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں