بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گناہوں پر ندامت نہیں ہوتی تو کیا کرے؟


سوال

زید ایک گناہ گار انسان ہے اور زید کو اس بات کا اندازہ ہے، لیکن زید کو اپنے گناہوں پر ایسی ندامت نہیں ہوتی جو اس سے گناہ چھڑوا دے، حالاں کہ زید سے ایسے ایسے گناہ ہوئے ہیں کہ  اگر زید کے گناہوں کا لوگوں کو پتہ چل جائے تو کوئی بھی زید کی شکل دیکھنا پسند نہیں کرے گا، لہٰذا آپ راہ نمائی فرمائیں کہ  گناہوں پر ندامت کیسے پیدا ہو؟ اس کے لیے کوئی راستہ دکھا دیجیے۔

جواب

واضح رہے کہ گناہوں کا ہوجانا انسان کی فطرت میں داخل ہے، البتہ گناہوں کے صدور کے بعد ان سے توبہ کرنا لازمی ہے، حدیث شریف میں ہے کہ ’’تمام بنی آدم خطا کار ہیں اور بہترین خطا کرنے والے توبہ کرنے والے ہیں ۔‘‘

البتہ یہ یاد رہے کہ توبہ کے قبول ہونے کے لیے اپنے گناہوں پر نادم ہونا اور آئندہ کے لیے گناہوں کو چھوڑنے کا عزم کرنا ضروری ہے۔

لہٰذا زید کو جب اپنے گناہ گار ہونے کا علم ہے اور اسے اس بات پر ندامت بھی نہیں ہے، تو اولاً زید پر لازم ہے کہ اپنے گناہوں پر اور ندامت کے نہ ہونے پر سچے دل کے ساتھ کثرت سے توبہ و استغفار کرے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید نہ ہو، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو معاف کرنے والا ہے، اور توبہ کرتے ہوئے یہ عزم کرے کہ آئندہ وہ گناہ نہیں کرے گا، اور اگر زید کو ندامت کی کیفیت پیدا نہیں ہورہی تو پھر بھی اپنے آپ کو قصوروار سمجھتے ہوئے توبہ و استغفار کثرت سے کرے، اور گناہوں کو مکمل طور پر چھوڑ دے، نمازوں اور دعاؤں کا اہتمام کرے، قرآن کریم کی تلاوت کرے اور موت کو یاد کرے، ان شاء اللہ ضرور مفید ہوگا۔

قرآن کریم میں ہے:

" قُلْ يَـٰعِبَادِىَ ٱلَّذِينَ أَسْرَفُوا۟ عَلَىٰٓ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِن رَّحْمَةِ ٱللَّهِ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ يَغْفِرُ ٱلذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلْغَفُورُ ٱلرَّحِيمُ."(سورة الزمر: 53)

ترجمہ: "آپ کہہ  دیجیے کہ اے میرے بندو! جنھوں نے اپنے اوپر زیادتیاں کی ہیں، تم خدا تعالیٰ کی رحمت سے نا امید مت ہو۔ بالیقین اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو معاف فرمادے گا۔ واقعی وہ بڑا بخشنے والا بڑی رحمت کرنے والا ہے۔" (بیان القرآن)

وفيه أيضاً:

"وَهُوَ ٱلَّذِى يَقْبَلُ ٱلتَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَعْفُوْا عَنِ ٱلسَّيِّـَٔاتِ وَيَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ."(سورة الشورى: 25)

ترجمه: "وہ ایسا ہے کہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور وہ تمام گناہ معاف فرمادیتا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو، وہ اس کو جانتا ہے۔" (بیان القرآن )

وفيه أيضاً:

"ںبِّئْ عِبَادِىٓ أَنِّىٓ أَنَا ٱلْغَفُورُ ٱلرَّحِيمُ." (سورة الحجر:49)

ترجمہ: "آپ میرے بندوں کو اطلاع دے دیجیے کہ میں بڑا مغفرت اور رحمت والا ہوں۔" (بیان القرآن )

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «كل بني آدم ‌خطاء وخير الخطائين التوابون». رواه الترمذي وابن ماجه والدارمي."

(كتاب الدعوات، باب الاستغفار والتوبة، ج: 2، ص: 724، ط: المكتب الإسلامي بيروت)

ترجمہ: ’’حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تمام بنی آدم خطا کار ہیں(یعنی انبیاء کرام کےعلاوہ اس لیے کہ وہ خطا سے معصوم ہیں)اور بہترین خطا کرنے والے توبہ کرنے والے ہیں۔‘‘ (مظاہر الحق)

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"عن ابن معقل، قال: دخلت مع أبي على عبد الله، فسمعته يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الندم توبة» ، فقال له أبي: أنت سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «الندم توبة» ، قال: نعم."

(كتاب الزهد، باب ذكر التوبة، ج: 2، ص: 1420، ط: دار إحياء كتب العربية)

ترجمہ: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ندامت ہی توبہ ہے۔‘‘

مرقاة المفاتيح ميں هے:

"(عنه) أي: عن ابن مسعود (موقوفا) : لكنه في حكم المرفوع (قال: الندم توبة) أي: ركن أعظمها الندامة، إذ يترتب عليها بقية الأركان من القلع والعزم على عدم العود، وتدارك الحقوق ما أمكن، وهو نظير الحج عرفة إلا أنه عكس مبالغة، والمراد الندامة على فعل المعصية من حيث إنها معصية لا غير، (والتائب من الذنب كمن لا ذنب له)."

(باب الاستغفار والتوبة، ج: 4، ص: 1637، ط: دار الفكر بيروت)

وفيه أيضا:

"(وعن عائشة - رضي الله عنها - قالت: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: (إن العبد إذا اعترف) أي: أقر بكونه مذنبا وعرف ذنبه (ثم تاب) : أتى بأركان التوبة من ‌الندم والخلع والعزم والتدارك (تاب الله عليه) أي: قبل توبته لقوله تعالى: {وهو الذي يقبل التوبة عن عباده} [الشورى: 25] قال الطيبي: وحقيقته، أن الله يرجع عليه برحمته. (متفق عليه)."

(باب الاستغفار والتوبة، ج: 4، ص: 1614، ط: دار الفكر بيروت)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144406101264

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں