بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گناہوں سے بچنے کے لیے والدین کی اجازت کے بغیر نکاح کرنے کا حکم


سوال

اگر والدین کو بار بار سمجھانے کے باوجود بھی وہ شادی کے لیے راضی نہ ہورہے ہوں، اور ہم سے گناہ سرزد ہو رہے ہیں، تو کیا ان کو بتائے بغیر شادی کر سکتے ہیں؟ اور ایسا کرنا نافرمانی کرنے کے زمرےمیں تو نہیں آئے گا؟راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ  بچہ جب بالغ ہوجائے تو جلد سے جلد اس کے جوڑ کا رشتہ ڈھونڈ کر اس کا نکاح کردینا چاہیے،بشرطیکہ لڑکا اپنی بیوی کا نفقہ دینے پر خود قادر ہو یا کوئی ( والد وغیرہ) اس کا اور اس کی بیوی کا خرچہ اٹھانے کے لیے تیار ہو، اگر قرائن سے اندازہ ہو کہ بیٹا شادی کرنا چاہتا ہے، ورنہ گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے اور پھر بھی والدین بلا کسی عذر کے اس کی شادی کرانے میں غیر ضروری تاخیر کریں تو گناہ میں مبتلا ہونے کی صورت میں والدین پر بھی اس کا وبال آئے گا،اس لیے والدین اگر شادی کرانے میں غیر ضروری تاخیر سے کام لے رہے ہیں تو سب سےپہلے والدین کو منانے کی کوشش کی جائے،اگر تمام تر کوششوں کے باوجود نہ مانیں اور لڑکا نکاح کرلے گناہوں سے بچنے کے لیے تو شرعاً یہ نافرمانی شمارنہیں ہوگی۔

مشکوۃ شریف میں ہے:

'' وعن أبي سعيد وابن عباس قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من ولد له ولد فليحسن اسمه وأدبه فإذا بلغ فليزوّجه، فإن بلغ ولم يزوّجه فأصاب إثماً فإنما إثمه على أبيه.''

(كتاب النكاح، الفصل الثالث، ج:2، ص:939، ط:المكتب الإسلامي)

ترجمہ:حضرت ابو سعید خدری اورابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا جس کے ہاں لڑکا پیدا ہو اس کا اچھا نام رکھےاور اس کو ادب سکھائے پھر جب وہ بالغ ہوجائے تو وہ اس کا نکاح کردےپھر اگر لڑکا بالغ ہوا اوراس کا نکاح اس کے والد نے نہ کیاحالاں کہ وہ اس کا نکاح کرسکتا تھا،پھر لڑکے سے کوئی گناہ یعنی زنا وغیرہ صادر ہوا زنا کے مقدمات پیش آئےتو اس کا گناہ اس لڑکے کے والد پر ہوگا۔

(مظاہر حق جدید،نکاح کا بیان،ج:3، ص:300، ط:مکتبۃ العلم)

"مرقاۃ المفاتیح"میں ہے:

"(وعن أبي سعيد وابن عباس قالا: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: من ولد له ولد) أي: ذكرا أو أنثى (فليحسن) بالتخفيف والتشديد (اسمه وأدبه) أي: معرفة أدبه الشرعي (وإذا بلغ) وفي نسخة صحيحة بالفاء (فليزوجه) وفي معناه التسري (إن بلغ) أي: وهو فقير (ولم يزوجه) أي: الأب وهو قادر (فأصاب) أي: الولد (إثما) أي: من الزنا ومقدماته (فإنما إثمه على أبيه) أي: جزاء الإثم عليه لتقصيره وهو محمول على الزجر والتهديد للمبالغة والتأكيد، قال الطيبي - رحمه الله -: أي جزاء الإثم عليه حقيقية ودل هنا الحصر على أن لا إثم على الولد مبالغة لأنه لم يتسبب لما يتفادى ولده من أصابه الإثم."

(كتاب النكاح، ج:5، ص:2064، ط:دارالفكر)

"ردالمحتار"میں ہے:

"(ويكون واجبا عند التوقان) فإن تيقن الزنا إلا به فرض نهاية وهذا إن ملك المهر والنفقة، وإلا فلا إثم بتركه بدائع.

(قوله: عند التوقان) مصدر تاقت نفسه إلى كذا إذا اشتاقت من باب طلب بحر عن المغرب وهو بالفتحات الثلاث كالميلان والسيلان، والمراد شدة الاشتياق كما في الزيلعي: أي بحيث يخاف الوقوع في الزنا لو لم يتزوج إذ لا يلزم من الاشتياق إلى الجماع الخوف المذكور بحر.

قلت: وكذا فيما يظهر لو كان لا يمكنه منع نفسه عن النظر المحرم أو عن الاستمناء بالكف، فيجب التزوج، وإن لم يخف الوقوع في الزنا (قوله: فإن تيقن الزنا إلا به فرض) أي بأن كان لايمكنه الاحتراز عن الزنا إلا به؛ لأن ما لا يتوصل إلى ترك الحرام إلا به يكون فرضا بحر".

(كتاب النكاح، ج:3، ص:6، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144404101125

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں