بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گناہ کبیرہ اور اس کی تلافی کی صورتیں


سوال

گناہ کبیرہ کی تلافی کی کیسے کریں؟

جواب

واضح رہے کہ گناہِ کبیرہ دو طرح کے ہیں ،1)حقوق اللہ میں کوتاہی،2)حقوق العباد میں کوتاہی:

1)حقوق اللہ میں کوتاہی اور اس کی تلافی:

اگر کسی نے اللہ کے کسی حق کو پامال کیا ہوا،مثلاً نماز قضا   کردی یا فرض روزے  چھوڑدیے یا زکوۃ ادا نہیں کی یا حج اس کے اوپر فرض ہے اور اس نے ابھی تک  نہیں کیا ،تو ایسے شخص کو چاہیے کہ سچے دل سے اللہ تعالی سے سچی توبہ (گزشتہ کیے گئے گناہ پر ندامت اور پشیمانی ،جس گناہ میں مبتلا ہے اس گناہ کو فوری ترک کردے،اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا  پختہ عزم کرے)کرے،پھر جو گناہ ہوگیا ہے اس کی تلافی کی فکر کرے اس کا جتنا تدارک اس کے قبضہ میں ہے اس کو پورا کرے، مثلاً نماز روزہ فوت ہوا ہے تو اس کو قضا کرے فوت شدہ نمازوں اور روزوں کی صحیح تعداد یاد نہ ہو، تو غور و فکر سے کام لے کر تخمینہ متعین کرے، پھر ان کی قضا  کرنے کا پورا اہتمام کرے، بیک وقت نہیں کر سکتا تو ہر نماز کے ساتھ ایک ایک نماز قضاءِ عمری کی پڑھ لیا کرے، ایسے ہی متفرق اوقات میں روزوں کی قضا  کا اہتمام کرے، فرض زکاۃ ادا نہیں کی تو گزشتہ زمانہ کی زکاۃ بھی یک مشت یا تدریجاً ادا کرے،فرض حج نہیں کیا تو حج کرلے۔

2)حقوق العباد میں کوتاہی اور اس کی تلافی:

اگر کسی نے کسی بندے کے حق کو پامال کیا ہو،مثلاًکسی کا مال ناحق طریقہ سے لے لیا ہو ،یا کسی کو تکلیف پہنچائی ہو،تو ایسے شخص کو چاہیے کہ جس کامال ناحق طریقہ(چوری،ڈکیتی، جھوٹ ،دھوکا دہی،خیانت) سے لیا ہے اس کو یا اس کے ورثاء کو اس کا مال واپس کردے،جس کو تکلیف پہنچائی ہے اس سے معافی مانگ لے۔

"شرح المشكاة للطيبي الكاشف عن حقائق السنن"میں ہے:

"2323 - عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((والله إني لأستغفر الله وأتوب إليه في اليوم أكثر من سبعين مرة)) رواه البخاري.

الاستغفار استفعال من الغفران، وأصله من الغفر، وهو إلباس الشيء بما يصونه عن الدنس. ومنه قيل: اغفر ثوبك في الوعاء، فإنه أغفر للوسخ. الغفران والمغفرة من الله، هو أن يصون العبد من أن يمسه العذاب، والتوبة ترك الذنب على أحمد الوجوه، وهو أبلغ ضروب الاعتذار، فإن الاعتذار على ثلاثة أوجه، إما أن يقول المعتذر: لم أفعل، أو يقول: فعلت لأجل كذا، أو فعلت أو أسأت، ولقد أقلعت، ولا رابع لذلك. وهذا الأخير هو التوبة، ثم التوبة في الشرع ترك الذنب لقبحه، والندم على ما فرط منه، والعزيمة على ترك المعاودة، وتدارك ما أمكنه أن يتدارك من الأعمال بالأعمال بالإعادة؛ فمتى اجتمع هذه الأربع فقد كمل ‌شرائط ‌التوبة، وتاب إلى الله. هذا كلام الراغب، وزاد كلام الشيخ محيي الدين النووي وقال: وإن كان الذنب يتعلق ببني آدم، فلها شرط آخر، وهو رد الظلامة إلي صاحبها، أو تحصيل البراءة منه. والتوبة أهم قواعد الإسلام، وهي أول مقدمات سالكي الآخرة. وأنشد بعضهم في مناجاته:

لو لم ترد نيل ما أرجو وأطلبه … من وجود كفيك ما علمتني الطلبا

يريد به قوله تعالي:} واستغفروا ربكم إنه كان غفارا."

(كتاب الدعوات، باب الاستغفار والتوبة، الفصل الأول، ج:6، 1835، ط: مكتبة نزار مصطفى الباز مكة المكرمة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503101823

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں