بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گناہوں سے توبہ کرنا


سوال

 بندے کی عُمر ۴۲ برس ہے، نوجوانی کا بیشتر حصہ معصیت میں گزرا ہے، کچھ علماء کے مشورے سے ڈھلتی جوانی میں توبہ کا موقع تو نصیب ہوا، لیکن کچھ معاملات اب بھی ایسے ہیں جن کے بارے میں دل پریشان ہے، اس میں سے فی الوقت ایک معاملے میں راہ نمائی کے لئے آپ سے رابطہ کررہا ہوں جس کی تفصیل درج ذیل ہے، عرض یہ ہے کہ میری پہلی شادی ۸ برس قائم رہی، شادی کے ۶ سال بعد میری زوجہ کو کینسر کا مرض لاحق ہو گیا، ۲ برس بعد سنہ ۲۰۱۶ء میں وہ اُس مرض سے انتقال کر گئیں، شادی کے بعد ان کی بیماری تک ہمارا ازدواجی تعلق کوئی خاص بہت اچھا نہیں تھا، معمولی لڑائی جھگڑے، ناراضگی اور سسرالی کھینچاتانی کے علاوہ شوہر و بیوی کے جسمانی تعلق کی کمی کے باعث بھی آہستہ آہستہ بہت دراڑ پڑ گئی، لیکن میں اُن کو پھر بھی ناپسند نہیں کرتا تھا، بس طبیعت کچھ اکھڑی سے رہتی تھی اور اپنے ماضی کے گناہوں کی طرف دوبارہ طبیعت مائل ہونے لگی تھی، میں نے کبھی ان پر ہاتھ نہیں اُٹھایا لیکن تلخ کلامی بہت کی، یقیناً دل بھی بہت دکھایا ہوگا، کچھ بے رخی کے باعث اور کچھ زندگی کی دیگر ناکامیوں سے جھنجلاہٹ کے باعث وہ بیمار ہوگئیں، میں نے موت تک ان کی بیماری میں ان کا جتنا علاج معالجے میں ساتھ دے سکتا تھا دیا ،لیکن میں جانتاہوں کہ اس سب کے باوجود میں ان کے بہت سے حقوق پورے نہیں کر سکا، کچھ کے بارے میں مجھے یقین ہے کہ وہ مجھے یاد ہیں، کچھ ایسے بھی ہوں گے جو یادداشت سے اب محو ہوگئے، ان کے انتقال کے کچھ عرصے بعد اللٰہ نے میرا گھر پھر بسادیا اور ایک اور اچھی خاتون کو ہمسفر بنادیا، لیکن میں پہلی زوجہ کو نہ بھول پایاہوں اور نہ ہی اس احساس سے نکل سکا ہوں کہ میں نے ان کی حق تلفی کی اور زیادتیاں کیں، اور ان سے موت سے پہلے معافی بھی نہیں مانگ سکا (چونکہ وہ بہت بیمار اور کینسر کے باعث شدید تکلیف میں تھیں تو ان کی مزید دل آزاری سے ڈرتا تھا)، ان کی موت کے بعد اکثر ان کے لئے سورة یسٰ پڑھ کے مغفرت کی دُعا مانگتا ہوں، لیکن دل سے احساسِ جرم نہیں جاتا، یہ بھی کہ مجھ جیسے گناہ گار کی نامعلوم اللٰہ تلاوت و دعا قبول بھی کرتے ہوں گے یا نہیں؟آپ بتائیے کہ ایسے معاملے میں حقوق العباد کی بابت کیا حکم ہے؟ کیا میری جانے انجانے میں کی ہوئی زیادتیوں کا ازالہ ان کی موت کے بعد اب ممکن ہے؟ راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

 اللہ تعالی کی ذات بہت کریم ذات ہے،انسان کی ہر خطا کو معاف کرنے والی ہے،بس شرط یہ ہے کہ آدمی سچے دل سے اللہ کے حضور توبہ کرے ،اورتوبہ کی قبولیت کی  شرائط میں  یہ  ہیں  کہ دل سے اپنے کیے پر ندامت ہو ،آئندہ نہ کرنے کا پختہ ارادہ ہو اور اگر حقوق ذمہ لاز م ہو تو اس کو ادا کرنے کا اہتمام شروع کردیا جائے،لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کو پہلی بیوی کے ساتھ اپنے نامناسب رویے  پر ندامت ہے تو  اللہ تعالی سے سچے دل سے توبہ کرے ،اس کی برکت سے اللہ تعالی تمام گناہوں کو معاف فرمادیں گے، اور اب بیوی کے انتقال کے بعدسائل کو چاہیے کہ مرحومہ بیوی کے لیے  ایصالِ ثواب کا مستقل  معمول رکھے،وقتا فوقتا مرحومہ کے لیے صدقہ کا اہتمام کرتا رہے،اس کی برکت سے ان کی روح کو بر میں راحت ملےگی اور ان شاءاللہ تعالیٰ  اللہ بھی در گزر کا معاملہ فرمائیں گے۔

ریاض الصالحین میں ہے:

"قال العلماء: التوبة واجبة من كل ذنب، فإن كانت المعصية بين العبد وبين الله تعالى لا تتعلق بحق آدمي، فلها ثلاثة شروط:

أحدها: أن يقلع عن المعصية.

والثاني: أن يندم على فعلها.

والثالث: أن يعزم أن لا يعود إليها أبدا. فإن فقد أحد الثلاثة لم تصح توبته."

موسوعہ فقہیہ کویتیہ میں ہے:

"أركان وشروط التوبة:

4 - ذكر أكثر الفقهاء والمفسرين أن للتوبة أربعة شروط: الإقلاع عن المعصية حالا، والندم على فعلها في الماضي، والعزم عزما جازما أن لا يعود إلى مثلها أبدا."

(ص:120، ج:14، ط:دار السلاسل)

نیز اللہ تعالی سے حسنِ ظن رکھتے ہوئے نیک اعمال کا اہتمام کرتے رہیں،اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144403102091

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں