بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گناہ سے توبہ کرنا


سوال

اگر کوئی شخص حرام کھاتا ہو اور خدا نخواستہ وہ کوئی کفریہ کلمہ بک دے اور توبہ کر کے تجدیدِ ایمان کر لے تو کیا اس اس کی توبہ قبول ہو جائے گی؟ اور اس کیا اس کے ایمان کی تجدید ہو جائے گی ؟

جواب

واضح رہےکہ گناہ کبیرہ ہوجانے کے بعد اگر کوئی شخص اگر صدق دل سے اللہ تعالی سے معافی مانگے،اور اسےاپنے کیے پر ندامت بھی ہو ،آئندہ نہ کرنے کا پختہ ارادہ ہو،تو اللہ تعالی اس کے گناہ  کو معاف فرمادیتا ہے،خدانخواستہ اگر کسی مسلمان شخص نے کفریہ کلمہ اپنے منہ سے نکالا ہو تو اس سے وہ شخص ایمان سے محروم ہوجاتا ہے اور شادی شدہ ہونے کی صورت میں نکاح بھی ٹوٹ جاتا ہے،اس پر تجدیدایمان اور تجدیدنکاح دونوں ضروری ہوتے ہیں،باقی حرام مال کھانا بھی گناہ کبیرہ ہے،حرام مال کھانے سے بھی توبہ کرنا ضروری ہے،لیکن حرام مال کھانے کی وجہ سے یہ حکم نہیں لگے گا کہ اس کی توبہ اور تجدیدایمان قبول نہیں،حرام مال کھانے کے باوجود اس کا تجدیدایمان اور توبہ قبول ہوگی،البتہ اس پر لازم ہے کہ حرام مال سے بھی توبہ کرے۔

ریاض الصالحین میں ہے:

"قال العلماء: التوبة واجبة من كل ذنب، فإن كانت المعصية بين العبد وبين الله تعالى لا تتعلق بحق آدمي، فلها ثلاثة شروط:

أحدها: أن يقلع عن المعصية.

والثاني: أن يندم على فعلها.

والثالث: أن يعزم أن لا يعود إليها أبدا. فإن فقد أحد الثلاثة لم تصح توبته."

(باب التوبة، ص:15، ط:دار ابن كثير)

"موسوعہ فقہیہ کویتیہ "میں ہے:

"أركان وشروط التوبة:

4 - ذكر أكثر الفقهاء والمفسرين أن للتوبة أربعة شروط: الإقلاع عن المعصية حالا، والندم على فعلها في الماضي، والعزم عزما جازما أن لا يعود إلى مثلها أبدا."

(ص:120، ج:14، ط:دار السلاسل)

"جمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر "(1/ 687):

"فما يكون كفرًا بالاتفاق يوجب إحباط العمل كما في المرتد وتلزم إعادة الحج إن كان قد حجّ ويكون وطؤه حينئذ مع امرأته زنا والولد الحاصل منه في هذه الحالة ولد الزنا، ثم إن أتى بكلمة الشهادة على وجه العادة لم ينفعه ما لم يرجع عما قاله؛ لأنه بالإتيان بكلمة الشهادة لايرتفع الكفر، وما كان في كونه كفرًا اختلاف يؤمر قائله بتجديد النكاح وبالتوبة والرجوع عن ذلك احتياطًا، وما كان خطأً من الألفاظ لايوجب الكفر فقائله مؤمن على حاله ولايؤمر بتجديد النكاح ولكن يؤمر بالاستغفار والرجوع عن ذلك، هذا إذا تكلم الزوج، فإن تكلمت الزوجة ففيه اختلاف في إفساد النكاح، وعامة علماء بخارى على إفساده لكن يجبر على النكاح ولو بدينار وهذا بغير الطلاق".

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144403100272

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں