بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گناہ میں مبتلا ہونے کے اندیشے کی صورت میں والدین کی اجازت کے بغیر نکاح کرنا


سوال

اگر لڑکا بالغ ہو گیا ہے اور اسے اس بات کا ڈر ہے کہ اگر وہ نکاح نہیں کرے گا تو کسی گناہ میں مبتلا ہو جائے گا،اور حال یہ ہے کہ ماں باپ اس کا نکاح نہیں کرا رہے ہیں تو کیا وہ ماں باپ کی اجازت کے بغیر نکاح کر سکتا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر والدین بلاوجہ تاخیر کررہے ہوں اور بیٹا  شادی کی استطاعت رکھتا ہے اور بیوی کے نان ونفقہ کا بھی انتظام کرسکتا ہو تو اس کے لیے گواہوں کی موجودگی میں از خود اپنی شادی کرنا جائز ہے،  والدین پر بھی لازم ہے کہ بچے جب شادی کی عمر کو پہنچ جائیں تو ان کے نکاح کا انتظام کریں، اس میں معمولی اور غیر اہم امور کی وجہ سے تاخیر کرنا مناسب نہیں، خصوصًا موجودہ ماحول میں جہاں بے راہ روی عام ہے، جلد از جلد اس ذمہ داری کو ادا کردیناچاہیے، احادیثِ مبارکہ میں بھی بلاوجہ نکاح میں تاخیر کرنے کی ممانعت آئی ہے، جیسا کہ    حضرت  علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: "علی، تین باتوں کے کرنے میں دیر نہ کیا کرنا، ایک تو نماز ادا کرنے میں جب کہ وقت ہوجائے، دوسرے جنازہ میں جب تیار ہوجائے اور تیسرے بے خاوند عورت کے نکاح میں جب کہ اس کا کفو (یعنی ہم قوم مرد) مل جائے"۔ایک دوسری حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:"جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اس کی ذمہ داری ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے، بالغ ہونے پر اس کی شادی کرے، اگر شادی نہیں کی اور اولاد نے کوئی گناہ کرلیا تو باپ اس جرم میں شریک ہوگا اور گناہ گار ہوگا"۔ایک اور حدیث میں توریت کے حوالے سے  اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:"توریت میں درج ہے کہ جس کی بیٹی بارہ سال کی ہوجائے اور وہ اس کا نکاح نہ کرے، پھر لڑکی سے کوئی گناہ ہوجائے تو باپ بھی گناہ گار ہوگا۔"

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن علي رضي الله عنه: أن النبي صلى الله عليه وسلم قال:يا علي ‌ثلاث ‌لا ‌تؤخرها الصلاة إذا أتت والجنازة إذا حضرت والأيم إذا وجدت لها كفؤا." رواه الترمذي."

(كتاب الصلاة، باب تعجيل الصلوات، الفصل الثاني، ج:١، ص:١٩٢، رقم:٦٠٥، ط:المكتب الإسلامي)

وفیہ ایضاً:

"وعن أبي سعيد وابن عباس قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من ولد له ولد فليحسن اسمه وأدبه فإذا بلغ فليزوّجه، فإن بلغ ولم يزوّجه فأصاب إثماً فإنما إثمه على أبيه."

(كتاب النكاح، ‌‌باب الولي في النكاح واستئذان المرأة، الفصل الثالث، ج:٢، ص:٩٣٩، رقم:٣١٣٨، ط: المكتب الإسلامي)

وفیہ ایضاً:

''وعن عمر بن الخطاب وأنس بن مالك رضي الله عنهما عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:"في التوراة مكتوب: من بلغت ابنته اثنتي عشرة سنةً ولم يزوّجها فأصابت إثماً فإثم ذلك عليه. رواهما البيهقي في شعب الإيمان''.

( كتاب النكاح، ‌‌باب الولي في النكاح واستئذان المرأة، الفصل الثالث، ج:٢، ص:٩٣٩، رقم:٣١٣٩، ط: المكتب الإسلامي)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"(وأما ركنه) فالإيجاب والقبول، كذا في الكافي والإيجاب ما يتلفظ به أولا من أي جانب كان والقبول جوابه هكذا في العناية."

(كتاب النكاح، الباب الأول في تفسير النكاح، ج:١، ص:٢٦٧، ط:رشيدية)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"وقال الحنفية في ظاهر الرواية عن أبي حنيفة وأبي يوسف رحمهما الله: للمرأة العاقلة البالغة تزويج نفسها وابنتها الصغيرة، وتتوكل عن الغير، ولكن لو وضعت نفسها عند غير كفء، فلأوليائها الاعتراض. وعبارتهم: ‌ينعقد ‌نكاح ‌الحرة العاقلة البالغة برضاها وإن لم يعقد عليها ولي، بكراً كانت أم ثيباً، عند أبي حنيفة وأبي يوسف رحمهما الله في ظاهر الرواية، والولاية مندوبة مستحبة فقط."

(‌‌شروط صحة الزواج، ‌‌الباب الأول: الزواج وآثاره، الشرط العاشر:حضور الولي، ج:٩، ص:٦٥٧٣، ط:دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503101812

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں