بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گناہ میں مبتلا ہونے کے اندیشہ کی صورت میں والدین کی اجازت کے بغیر شادی کرنے کا حکم


سوال

میں ایک لڑکی کو پسند کرتا ہوں اور اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں، مگر میرے والدین اس لیے  راضی نہیں ہورہے ہیں کہ وہ کسی اور کاسٹ کی ہے اور غریب گھرانے کی ہے، میں اس کو پسند کرتا ہوں، میری عمر 27 سال ہے اور میں گناہوں سے بچنے کے لیے شادی کرنا چاہتا ہوں، میرے والدین میرے  لیے کوئی امیر زادی اور اپنی کاسٹ کی لڑکی دیکھنا چاہتے ہیں، کیا میں ان کی رضامندی کے بغیر اس لڑکی سے نکاح کرسکتا ہوں؟ اگر کروں گا تو کیا یہ نافرمانی میں آئے گا ؟

 

جواب

واضح رہے کہ  پسند کی شادی میں عموماً وقتی جذبات محرک بنتے ہیں، وقت کے  ساتھ ساتھ ان جذبات اور پسندیدگی میں کمی آنے لگتی ہے، نتیجتاً ایسی شادیاں ناکام ہوجاتی ہیں اورعلیحدگی کی نوبت آجاتی ہے، جب کہ اس کے مقابلے میں خاندانوں اور رشتوں کی جانچ پڑتال کا تجربہ رکھنے والے والدین اورخاندان کے بزرگوں کے کرائے ہوئے رشتے زیادہ پائے دار ثابت ہوتے ہیں اور بالعموم شریف گھرانوں کا یہی طریقہ کارہے، ایسے رشتوں میں وقتی ناپسندیدگی عموماً  گہری پسند میں بدل جایا کرتی ہے؛ اس لیے مسلمان بچوں اوربچیوں کو چاہیے کہ وہ  اپنے ذمے کوئی بوجھ اٹھانےکے بجائے اپنے بڑوں پراعتماد کریں،  ان کی رضامندی کے بغیر کوئی قدم نہ اٹھائیں۔

نیز شریعت نے لڑکے، لڑکی کے نکاح کا اختیار والدین کو دے کر انہیں بہت سی نفسیاتی و معاشرتی سی الجھنوں سے بچایا ہے، اس لیے کسی واقعی شرعی مجبوری کے بغیر خاندان کے بڑوں کے موجود ہوتے ہوئے لڑکے یا لڑکی کا از خود آگے بڑھنا خدائی نعمت کی ناقدری ہے، بےشمار واقعات شاہد ہیں کہ کسی کے بہکاوے میں آکر یا جذبات میں  کیے گئے  فیصلے بعد کی زندگی کو اجیرن کر ڈالتے ہیں۔

 البتہ والدین کو بھی چاہیے کہ عاقل بالغ اولاد کی رائے کا احترام کریں؛ کیوں کہ عاقل بالغ اولاد کو شریعت نے اس بات کااختیار دیا ہے کہ وہ اپنی پسند اور مرضی سے نکاح کرسکتے ہیں، اس لیے اگر بیٹا کسی ایسے گھرانے میں نکاح کرنے کا خواہش مند ہو جو گھرانا دین داری اور شرافت وغیرہ میں لڑکے والوں کے ہم سر ہو تو والدین کو  بیٹے  کی اس کی خواہش کا لحاظ کرنا چاہیے اور اولاد پر نکاح کے معاملہ میں جبر نہیں کرنا چاہیے اور اولاد کے ساتھ ایسا کوئی رویہ نہیں رکھنا چاہیے جس کی وجہ سے   اولاد کوئی ایسا قدم اٹھانے پر مجبور ہوجائے جو سب کے لیے رسوائی کا باعث ہو۔

خلاصہ یہ ہے کہ عاقل بالغ انسان پر نکاح کے معاملے میں کسی کو جبر کا حق نہیں ہے، لہٰذا اگر بیٹے کی پسند کی جگہ دین دار اور مناسب ہو تو  والدین کو وہاں رشتے کی بات کرلینی چاہیے، جبر نہیں کرنا چاہیے، لیکن والدین اگر کسی مصلحت کی وجہ سے راضی نہیں ہیں تو اولاد کو بھی والدین سے ضد نہیں کرنی چاہیے، جن والدین نے بچپن سے پال پوس کر بڑا کیا ان کا بہت بڑا حق ہے۔

بہرحال بچہ جب بالغ ہوجائے تو  جلد سے جلد اس کے جوڑ کا رشتہ ڈھونڈ کر اس کا نکاح کردینا چاہیے بشرطیکہ لڑکا اپنی بیوی کا نفقہ دینے پر خود قادر ہو یا کوئی ( والد وغیرہ) اس کا اور اس کی بیوی کا خرچہ اٹھانے کے لیے تیار ہو، اگر قرائن سے اندازہ ہو کہ بیٹا شادی کرنا چاہتا ہے ورنہ گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے اور پھر بھی والدین بلا کسی عذر کے اس کی شادی کرانے میں غیر ضروری تاخیر کریں تو گناہ میں مبتلا ہونے کی صورت میں والدین پر بھی اس کا وبال آئے گا، لہٰذا  آپ چوں کہ عاقل و بالغ ہیں اور شادی نہ ہونے کی وجہ سے گناہوں میں پڑنے کا اندیشہ ہے؛ اس لیے اگر والدین آپ کی شادی کروانے میں غیر ضروری تاخیر سے کام لے رہے ہیں  تو پہلے  والدین کو منانے کی کوشش کریں،  ورنہ اگر آپ گناہ سے بچنے کی نیت سے ان کی اجازت کے بغیر بھی نکاح کرلیں گے تو  اس سے  آپ کو والدین کی  نافرمانی کا گناہ نہیں ملے گا۔

حدیث شریف میں ہے:

'' وعن أبي سعيد وابن عباس قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من ولد له ولد فليحسن اسمه وأدبه فإذا بلغ فليزوّجه، فإن بلغ ولم يزوّجه فأصاب إثماً فإنما إثمه على أبيه''

(مشكاة المصابيح (2/ 939)

ترجمہ: ”جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اس کی ذمہ داری ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے، بالغ ہونے پر اس کی شادی کرے، اگر شادی نہیں کی اور اولاد نے کوئی گناہ کرلیا تو باپ اس جرم میں شریک ہوگا اور گناہ گار ہوگا“۔

حدیث شریف میں ہے:

''وعن عمر بن الخطاب وأنس بن مالك رضي الله عنهما عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " في التوراة مكتوب: من بلغت ابنته اثنتي عشرة سنةً ولم يزوّجها فأصابت إثماً فإثم ذلك عليه. رواهما البيهقي في شعب الإيمان''

(مشكاة المصابيح (2/ 939)

ترجمہ:”حضرت عمر رجی اللہ عنہ اور حضرت انس بن مالک رجی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تورات میں درج ہے کہ جس کی بیٹی بارہ سال کی ہوجائے اور وہ اس کا نکاح نہ کرے، پھر لڑکی سے کوئی گناہ ہوجائے تو باپ بھی گناہ گار ہوگا“۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 6):

"(ويكون واجبا عند التوقان) فإن تيقن الزنا إلا به فرض نهاية وهذا إن ملك المهر والنفقة، وإلا فلا إثم بتركه بدائع.

(قوله: عند التوقان) مصدر تاقت نفسه إلى كذا إذا اشتاقت من باب طلب بحر عن المغرب وهو بالفتحات الثلاث كالميلان والسيلان، والمراد شدة الاشتياق كما في الزيلعي: أي بحيث يخاف الوقوع في الزنا لو لم يتزوج إذ لا يلزم من الاشتياق إلى الجماع الخوف المذكور بحر.

قلت: وكذا فيما يظهر لو كان لا يمكنه منع نفسه عن النظر المحرم أو عن الاستمناء بالكف، فيجب التزوج، وإن لم يخف الوقوع في الزنا (قوله: فإن تيقن الزنا إلا به فرض) أي بأن كان لايمكنه الاحتراز عن الزنا إلا به؛ لأن ما لا يتوصل إلى ترك الحرام إلا به يكون فرضا بحر".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201280

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں