بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گناہ میں جہالت کا مطلب


سوال

سورہ یوسف کی آیت 89 میں یوسف علیہ السلام کے بھائی نے جو یوسف علیہ السلام کے ساتھا کیا تھا، لیکن ان کو اس کے انجام کے بارے  میں علم نہ تھا، اس لیے ان کو جاہل کہا گیا، میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر کسی نے کوئی گناہ کیا اور اس کو گناہ کے گناہ ہونے کا بھی علم ہے اور آخرت کے عذاب کا بھی علم کہ  آخرت میں کیا کیا اور کتنی مدت تک سزا دی جائے گی، لیکن پھر بھی کوئی سب کچھ جاننے کے باوجود بھی گناہ کرے  تو یہ بھی کیا جہالت میں آئے گا؟

جواب

حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کو جاہل اس لیے کہا گیا کہ وہ جس وقت یوسف علیہ السلام کے ساتھ برائی کر رہے تھے وہ اس عمل کی برائی سے ناواقف تھے، یہی وجہ ہے کہ ہر گناہ گار جاہل اور ناواقف ہوتا ہے، قرآن کریم میں  ہے کہ جو لوگ ناواقفیت سے گناہ کر دیتے ہیں اور توبہ کرتے ہیں اور اصلاح کرتے ہیں تو اللہ تعالی غفور و رحیم ہیں۔

تفسير ابن كثير / دار طيبة   (4 / 408)

{ إِذْ أَنْتُمْ جَاهِلُونَ } أي: إنما حملكم على هذا  الجهل بمقدار هذا الذي ارتكبتموه، كما قال بعض السلف: كل من عصى الله فهو جاهل، وقرأ: { ثُمَّ إِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِينَ عَمِلُوا السُّوءَ بِجَهَالَةٍ } إلى قوله: { إِنَّ رَبَّكَ مِنْ بَعْدِهَا لَغَفُورٌ رَحِيمٌ } [النحل: 119].

روح المعانى (7 / 45)

بدليل قوله : إِذْ أَنْتُمْ جاهِلُونَ أي هل علمتم قبح ما فعلتموه زمان جهلكم قبحه وزال ذلك الجهل أم لا؟

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107201152

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں