بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گناہ کے دوران غیر کا مملوکہ بیڈ ناپاک ہوا تو کیا اس کو بتانا ضروری ہے؟


سوال

میرے دوست نے پوچھا ہے کہ وہ توبہ کرنے سے پہلے اپنے رشتہ دار کے گھر کسی وجہ سے سٹے کررہا تھا،  اور تنہائی کے گناہ میں مبتلا تھا، گناہ کے دوران اس کی منی بیڈ پر لگ گئی، لیکن اس نے یہ کام جان بوجھ کر اس نیت سے نہیں کیا کہ ان کا بستر ناپاک ہو،  اور اس کے ذہن سے یہ بات نکل گئی تھی کہ ایسا ہوسکتا ہے، اس کے بعد اس نے توبہ کی، اور اب اس کو ڈر ہے کہ اللہ اس کو معاف کریں گے یا نہیں؟ کیوں کہ اس میں دوسرے کے مال کی بات آرہی ہے، لیکن اس کو یہ اندیشہ ہے کہ اگر بتایا تو اس کے رشتہ دار اس کے والدین کو رسوا کریں گے؛ کیوں کہ ان کے والدین کی ان سے لڑائی بھی ہوئی ہے، اسی طرح وہ اپنا گناہ ان کو بتانا بھی نہیں چاہ رہا، اس نے مجھ سے پہلے اس بات کا ذکر کیا تھا، لیکن اب مسئلہ پوچھنا چاہ رہا ہے،  وہ بے چارہ ناامیدی میں مبتلا ہے، اب اس کے لیے کیا حکم ہے؟ کیا وہ ان کو بیڈ کی ناپاکی کے بارے میں بتادے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ تنہائی کے گناہوں سے اللہ تعالٰی  بہت زیادہ ناراض ہوتا ہے،  اور ان کا انجام بڑا بھیانک ہوتا ہے، بندے کے کیے ہوئے نیک اعمال کو ضائع کرکے رکھ دیتے ہیں، چناں  چہ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں جانتا ہوں ان لوگوں کو جو قیامت کے دن تہامہ کے پہاڑوں کے برابر نیکیاں لے کر آئیں گے، لیکن اللہ تعالٰی ان کو  اڑتے ہوئے غبار کی طرح کر دے گا، حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ان لوگوں کا حال ہم سے بیان کردیجیے اور کھول کر بیان فرمائیے؛ تاکہ ہم لاعلمی میں ان لوگوں میں نہ ہوجائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم جان لو کہ وہ لوگ تمہارے بھائیوں میں سے ہیں اور تمہاری قوم میں سے، اور رات کو اسی طرح عبادت کریں گے جیسے تم کرتے ہو، لیکن وہ ایسے لوگ ہیں کہ جب اکیلے ہوں گے تو حرام کاموں کا ارتکاب کریں گے۔

علامہ ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ خلوت کے گناہ خاتمہ بالسوء (بغیر ایمان کے موت آنے) کا سبب ہوتے ہیں۔

لہذا سائل کے دوست کو چاہیے کہ اس شنیع حرکت سے سچی پکی توبہ کرے، ان شاء اللہ اللہ تعالیٰ معاف فرمائے گا؛ کیوں کہ اللہ توبہ کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے،  اور توبہ کی قبولیت کے لیے مندرجہ ذیل تین شرائط ہیں:

1- فوری اس گناہ کو ترک کرنا۔

2- گزشتہ صادر شدہ گناہ پر ندامت۔

3- آئندہ کے لیے نہ کرنے کا بختہ عزم۔

باقی بیڈ کے مالکان کو بیڈ پر لگی ہوئی نجاست کے بارے میں بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"عن ثوبان، عن النبي صلى الله عليه وسلم، أنه قال: «لأعلمن أقواما من أمتي يأتون يوم القيامة بحسنات أمثال جبال تهامة بيضا، فيجعلها الله عز وجل هباء منثورا» ، قال ثوبان: يا رسول الله صفهم لنا، جلهم لنا أن لا نكون منهم، ونحن لا نعلم، قال: «أما إنهم إخوانكم، ومن جلدتكم، ويأخذون من الليل كما تأخذون، ولكنهم أقوام إذا خلوا بمحارم الله ‌انتهكوها»."

(كتاب الزهد، باب ذكر الذنوب، ج: 2، ص: 1418، رقم: 4245، ط: دار احياء الكتب العربية)

جامع العلوم والحکم لابن رجب میں ہے:

"إن ‌خاتمة ‌السوء تكون بسبب دسيسة باطنة للعبد لا يطلع عليها الناس."

(الحديث الرابع، ص: 151، ط: دار ابن كثير)

شرح الفقہ الاکبر میں ہے:

"قبول التوبة : وهو إسقاط عقوبة الذنب عن التائب غير واجب على الله تعالى عقلاً، بل كان ذلك منه فضلاً خلافاً للمعتزلة،  فأما وقوع قبولها شرعاً، فقيل: هو مرجوّ غير مقطوع به."

(التوبة و شرائطها، ص:430، ط:دار البشائر الإسلامية)

فیہ ایضاً:

"قد نصوا على أن أركان التوبة ثلاثة : الندامة على الماضي والإقلاع في الحال والعزم على عدم العود."

(التوبة و شرائطها، ص:436، ط:دار البشائر الإسلامية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144407101934

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں