بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1445ھ 13 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گناہ کے کام میں مبتلا شخص سے قطع تعلقی کرنا


سوال

ہم جنس پرستوں پر مائل کرنے  والوں کے ساتھ قطع تعلقی جائز ہے، جب کہ ان کو روکنے کی پوری کوشش کی جائے،مگر وہ باز  نہ آئیں؟

جواب

اگر کوئی شخص کسی  گناہ کے کام   میں مبتلا ہو اور تنبیہ کے باوجود  اس سے باز نہ آتا ہو  تو اُس کی اصلاح کی نیت سے اُس سے قطع تعلقی کی جا سکتی ہے؛ تا کہ وہ اپنی غلط عادات سے باز آ جائے، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حضرت کعب بن مالک اور اُن کے دو ساتھیوں (رضی اللہ عنہم)  کے غزوہ تبوک میں  پیچھے رہ جانے کی وجہ سے متارکت اور قطع تعلقی  کا حکم فرمایا تھا۔

پھر  اگر کوئی شخص لوگوں کو سنگین گناہوں میں مبتلا کرنے کا باعث بنتا ہو اور اُس سے باز نہ آتا ہو تو ایسے شخص سے اُس  کی اصلاح کی نیت  سے   قطع تعلقی کی جا سکتی ہے  تاوقتیکہ وہ اپنی نازیبا حرکات اور گناہ کے کاموں سے توبہ  کر لے۔

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (22/ 144):

63 - (باب ما يجوز من الهجران لمن عصى)

أي: هذا باب في بيان ما يجوز من الهجران لمن عصى، وقال المهلب: غرض البخاري من هذا الباب أن يبين صفة الهجران الجائز وأن ذلك متنوع على قدر الإجرام، فمن كان جرمه كثيرا فينبغي هجرانه واجتنابه وترك مكالمته، كما جاء في كعب بن مالك وصاحبيه، وما كان من المغاضبة بين الأهل والإخوان فالهجران الجائز فيها ترك التحية والتسمية وبسط الوجه، كما فعلت عائشة في مغاضبتها مع رسول الله صلى الله عليه وسلم.

وقال كعب، حين تخلف عن النبي صلى الله عليه وسلم: ونهى النبي صلى الله عليه وسلم المسلمين عن كلامنا، وذكر خمسين ليلة.

أي: قال كعب بن مالك الأنصاري رضي الله عنه. قوله: (حين تخلف) في غزوة تبوك، وهو ليس ظرفا لقال بل لمحذوف أي: حين تخلف، كان كذا وكذا ونهى النبي صلى الله عليه وسلم، عن الكلام معه مع صاحبيه مرارة بن الربيع وهلال بن أمية الثلاثة الذين خلفوا، وذكر أن زمان هجر المسلمين عنهم كان خمسين ليلة، وهذا الذي ذكره طرف من حديث طويل مستوفى في آخر المغازي.

فتح الباری میں ہے:

''( قوله باب ما يجوز من الهجران لمن عصى )

 أراد بهذه الترجمة بيان الهجران الجائز لأن عموم النهي مخصوص بمن لم يكن لهجره سبب مشروع فتبين هنا السبب المسوغ للهجر وهو لمن صدرت منه معصية فيسوغ لمن اطلع عليها منه هجره عليها ليكف عنها."

(فتح الباری،10/497،ط:دارالمعرفۃ بیروت)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206200795

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں