بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

گناہ گار کی امامت کا حکم


سوال

گناہ گار کی امامت کا حکم کیاہے؟

جواب

بصورتِ مسئولہ اگر گناہ سے مراد گناہِ کبیرہ ہے تو واضح رہے کہ  گناہِ کبیرہ کا مرتکب فاسق ہے اور فاسق کی امامت مکروہِ تحریمی ہے، لیکن اگر کسی شخص کے فاسق ہونے کا علم ہو، لیکن اس کے علاوہ کوئی اور بہتر متقی پرہیزگار امام میسر نہ ہو تو فاسق کی اقتدا  میں نماز پڑھنا تنہا نماز پڑھنے سے افضل ہے۔ اور اگر گناہ سے گناہِ صغیرہ مراد ہے تو گناہِ صغیرہ پر اصرار (ہمیشگی) کرنے والے کی امامت کا بھی وہی حکم ہے جو گناہ کبیرہ کرنے والے کی امامت کاہے،اور اگر گناہ صغیرہ پر اصرار نہ ہو تو اس کی امامت بلاکراہت درست ہے۔

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح میں ہے:

"كره امامة الفاسق ... والفسق لغةً خروج عن الاستقامة، وهو معنى قولهم: خروج الشيء عن الشيء على وجه الفساد، وشرعًا خروج عن طاعة الله تعالى بارتكاب كبيرة، قال القهستاني: أي أو إصرار على صغيرة وينبغي أن يراد بلا تأويل، وإلا فيشكل بالبغاة، وذلك كتمام ومراء وشارب خمر اهـ قوله: "فتجب إهانته شرعًا فلايعظم بتقديمه للإمامة" تبع فيه الزيلعي، ومفاده كون الكراهة في الفاسق تحريمية."

(فصل في بيان الأحق بالإمامة، ص:303ط:دارالكتب العلمية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144203201382

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں