بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گناہ گار سید شخص کے احترام کا حکم


سوال

اگر سید شخص فاسق ہو تو کیا اس کی تعظیم ضروری ہے ؟

جواب

واضح ہو کہ جس طرح  وجیہ چہرہ، خوبصورت آواز وغیرہ انسان کے لیے غیر اختیاری نعمتِ الہیہ ہیں اور ان نعمتوں کا ایک حد تک مفید ہونا گناہ گار ہونے کے باوجود سمجھا اور مانا جاتا ہے، اسی طرح عالی نسب ہونا  خصوصاً سید ہونا؛ بھی ایک ایسی نعمت ہے جو انسان کے فسق و فجور کے باوجود اس کے ساتھ جڑی ہوتی ہے اور ایک حد تک  (خصوصاً معاشرت و معاملات میں) مفید ہوتی ہے، تاہم اگر فسق و فجور اس حد تک بڑھ جائے کہ لوگوں کی حق تلفی ہو یا ایسا گناہ ہو جس کی  شریعت میں قانونی سزا مقرر ہو یا احکامِ الہیہ سے بغاوت یا ان کے انکار تک پہنچ جائے تو اس موقع پر عالی نسب کے احترام کی جگہ شرعی قانون، حدودِ شریعت اور اسلام کی سربلندی کو پیشِ نظر رکھا جائے گا۔

صورت مسئولہ میں اگر سید کا فسق و فجور اپنی ذات کی حد تک ہے تو ایسے سید کا احترام کرنا اور ان سے ہمدردی رکھتے ہوئے ان کو فسق و فجور سے ہٹانے کی کوشش کرنا بہتر ہے۔ البتہ  اگر فسق و فجور کی وجہ سے لوگوں کی حق تلفی ہورہی ہوتو  ایسی صورت میں  سید حضرات کا ایسا احترام کرنا ممنوع ہے جس کے نتیجے میں انہیں مزید حق تلفی کی جرأت ہو بلکہ دل میں ان کی آخرت کی بھلائی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ظاہراً ان کا احترام اس نیت سے چھوڑنا بہتر ہے تاکہ انہیں تنبیہ ہو اور وہ اپنے اعمال پر توبہ کرلیں۔ اور اگر کوئی سید  احکامِ الہیہ سے بغاوت پر اتر آئے یا ان کا انکار اصرار کے ساتھ کرتا ہے  تو ایسی صورت میں  ان کا دل سے بھی احترام نہیں کیا جائے گا۔

جواہر الفقہ میں ہے :

ــــ’’۔۔۔ وہ شخص جو کوئی ذاتی کمال نہیں رکھتا اور محض شرافتِ نسب پر فخر کرتا ہے، اس کی مثال ٹھیک ایسی ہے جیسے کوئی شخص کسی مردہ کے حلق میں خمیرہ مروارید ڈال دے، یا کسی سڑے ہوئے مردار  کی گردن میں گراں قدر جواہرات کا ہار لٹکا دے، تو اس سے نہ مردہ میں کوئی قوت پیدا ہوگی اور نہ سڑے ہوئے مردار میں کوئی زینت۔

یہ مثال اس جگہ اس لیے بھی زیادہ چسپاں اور صحیح ہوگی کہ جس طرح مردہ بے جان میں خمیرہ مروارید اور عقد جواہرات کے بے سود اور بیکار ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ چیزیں بالکل بیکار ہوں، اسی طرح اس جگہ بد اعمالی و بد اخلاقی کے ساتھ شرافت نسب کے بیکار و بے فائدہ ہونے سے بھی شرافت نسب کا مطلقاً غیر مفید و بے کار ہونا لازم نہیں آتا  بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ شرافتِ نسب ایک نعمتِ الہیہ ہے، مگر اس کے مفید ہونے کے لیے اپنے ذاتی اعمال و اخلاق کا فی الجملہ درست ہونا شرط ہے۔

(اسلام اور نسبی امتیازات، ج۴ ؍ ص ۳۵۶، ۳۵۷، ط : مکتبہ دار العلوم کراچی)

إحياء علوم الدين میں ہے :

"اعلم أن الذنوب تقسم إلى ما بين العبد وبين الله تعالى وإلى ما يتعلق بحقوق العباد فما يتعلق بالعبد خاصة كترك الصلاة والصوم والواجبات الخاصة به وما يتعلق بحقوق العباد كتركه الزكاة وقتله النفس وغصبه الأموال وشتمه الأعراض وكل متناول من حق الغير فإما نفس أو طرف أو مال أو عرض أو دين أو جاه وتناول الدين بالإغواء والدعاء إلى البدعة والترغيب في المعاصي وتهييج أسباب الجراءة على الله تعالى كما يفعله بعض الوعاظ بتغليب جانب الرجاء على جانب الخوف وما يتعلق بالعباد فالأمر فيه أغلظ وما بين العبد وبين الله تعالى إذا لم يكن شركا فالعفو فيه أرجى وأقرب."

(ربع المنجيات، كتاب التوبة، الركن الثاني فيما عنه التوبة وهي الذنوب صغائرها وكبائرها، بيان أقسام الذنوب بالإضافة إلى صفات العبد،4 \16، دار المعرفة)

فتح الباري لابن حجر میں ہے :

"وقال الطيبي وغيره شبه الرحم بالأرض التي إذا وقع عليها الماء وسقاها حتى سقيها أزهرت ورؤيت فيها النضارة فأثمرت المحبة والصفاء وإذا تركت بغير سقي يبست وبطلت منفعتها فلا تثمر إلا البغضاء والجفاء ومنه قولهم سنة جماد أي لا مطر فيها وناقة جماد أي لا لبن فيها وجوز الخطابي أن يكون معنى قوله أبلها ببلالها في الآخرة أي أشفع لها يوم القيامة وتعقبه الداودي بأن سياق الحديث يؤذن بأن المراد ما يصلهم به في الدنيا ويؤيده ما أخرجه مسلم من طريق موسى بن طلحة عن أبي هريرة قال لما نزلت وأنذر عشيرتك الأقربين دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم قريشا فاجتمعوا فعم وخص إلى أن قال يا فاطمة أنقذي نفسك من النار فإني لا أملك لكم من الله شيئا غير أن لكم رحما سأبلها ببلالها."

(كتاب الأدب،  باب تبل الرحم ببلالها، 10\ 423، دار المعرفة)

التفسير المظهري میں ہے :

"وفي الاية دليل على انه حق على المؤمنين السعى والرعاية لذريّات الصلحاء مالم يصدر منهم طغيان وكفر فحينئذ يستحقون زيادة الإيذاء كما يدل عليه اية السابقة."

(سورة الكهف، آية 82، 6 \60، مكتبة الرشيدية)

مرقاة المفاتيحمیں ہے :

"(لو أن فاطمة بنت محمد سرقت لقطع محمد يدها) إنما ضرب المثل بفاطمة ; لأنها أعز أهله صلى الله عليه وسلم."

(كتاب الحدود، باب الشفاعة في الحدود،  6\ 2366، دار الفكر)

العلم الظاهر في نفع النسب الطاهر میں ہے :

"فکیف یظن احد من ذوی النسب  انتھک حرمات اللہ ولم یراع ما علیه وجب ان یبقی له حرمة و مقام عندہ علیه الصلوۃ والسلام ایزعم الغبی انه اعظم حرمة من اللہ عند نبیه ،کلا واللہ بل قلبه مغمورفی لجج الغفلة و ساہ فمن اعتقد ذالک یخشی علیه سوءالخاتمة والعیاذ باللہ."

(رسائل ابن عابدين، 1 \ 7)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100501

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں