بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گناہ چھوڑنے کی منت ماننا


سوال

بارہویں جماعت کے سالانہ امتحان کے نتائج سے پہلے میں نے منّت مانی تھی کہ اگر پاس ہوگیا تو مشت زنی اور فحش فلمیں چھوڑ دوں گا، میں پاس ہوگیا ،لیکن یہ گناہ نہیں چھوڑا۔ اب منت کے متعلق  مجھے کیا کرنا چاہیے ؟

جواب

شرعی طورپر نذر کے انعقاد کے لیے جو شرائط ہونی چاہییں مذکورہ صورت میں  گناہ چھوڑنے کی منت ماننے میں وہ شرائط نہیں پائی جارہیں،  اس لیے مذکورہ گناہ کے ہوجانے سے کوئی کفارہ لازم نہیں ۔

البتہ یہ یاد رہے کہ مشت زنی ، یا فحش فلمیں دیکھنادونوں ہی گناہ کبیرہ ہیں، رسول اللہ ﷺنے احادیث مبارکہ میں ان گناہوں پر سخت وعیدیں بیان فرمائی ہیں،ان دونوں گناہوں کو چھوڑنے کے لیے پختہ عزم اور ہمت کرنا  ضروری ہے،جب شیطان یہ گناہ کرنے کا داعیہ پیدا کرے تو انسان یہ خیال ذہن میں لائے کہ اگر اس وقت والدین، رشتہ دار، استاد یا کوئی بھی ایسا شخص سامنے موجود ہو  جس سے انسان اپنے گناہ چھپانا چاہتا ہےاور وہ اسے دیکھ رہا ہوتو آدمی ان سے حیا کر کے گناہ سے باز رہتا ہے، تو اللہ رب العزت جو ہر وقت انسان کو دیکھ اور سن رہے ہیں ان سے حیا کیوں نہیں کرتا، حدیث شریف میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بات کے زیادہ حق دار ہیں کہ ان سے حیا کی جائے، اسی کے ساتھ یہ خیال بھی ذہن میں لائے کہ اگر آج اس دنیا میں کسی کو اس کی خبر نہیں ہوتی اور اس گناہ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی چھوٹ دی جاتی  ہے تو کل قیامت کے دن تو بہرحال اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونا ہے اس وقت اللہ رب العزت کا سامنا کس طرح کرے گا! بخاری شریف  میں حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے "کل قیامت کے دن انسان اللہ  تعالیٰ کے سامنے اس طرح کھڑا ہوگا کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی حجاب نہ ہوگا اور نہ کوئی ترجمان ہوگا جو ترجمہ کرے"۔اور اس وقت اللہ تعالیٰ براہِ راست انسان پر  دینا میں اس پر کیے گئے احسانات یاد دلوا کر اس کے اعمال کے بارے میں سوال کریں گے۔اس وقت اور کیفیت کو دل میں حاضر کرنے سے ان شاء اللہ  ایسے گناہوں کا چھوڑنا آسان ہو جائے  گا۔

نیز اس گناہ کو ترک کرنے کے لیے جب تک سائل کی  تک شادی کا انتظام نہیں ہوجاتا روزے رکھیں جس سے شہوت ٹوٹ جائے،نیز سید الاستغفار کی کثرت کریں، نمازوں کا اہتمام کریں اور کسی اللہ والے بزرگ سے اپنا تعلق قائم کریں، سید الاستغفار یہ ہے:

"اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، خَلَقْتَنِي وَأَنَا عَبْدُكَ، وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ، أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ، وَأَبُوءُ لَكَ بِذَنْبِي، فَاغْفِرْ لِي، فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ".

"ترجمہ: اے اللہ تو ہی میرا رب ہے ، تیرے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں،تو نے مجھے پیدا کیا اور میں تیرا بندہ ہوں اور تیرے عہد اور وعدے پر قائم ہوں جس قدرطاقت رکھتا ہوں،میں نے جو کچھ کیا اس کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں،اپنے آپ پر تیری نعمت کا اقرار کرتا ہوں اور اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں،پس مجھے بخش دے کیوں کہ تیرے علاوہ کوئی گناہوں کو نہیں بخش سکتا۔"

صحیح بخاری میں ہے:

"...حدثنا ‌محل بن خليفة الطائي قال: سمعت ‌عدي بن حاتم رضي الله عنه يقول: «كنت عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجاءه رجلان، أحدهما يشكو العيلة، والآخر يشكو قطع السبيل، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أما قطع السبيل فإنه لا يأتي عليك إلا قليل، حتى تخرج العير إلى مكة بغير خفير، وأما العيلة: فإن الساعة لا تقوم، حتى يطوف أحدكم بصدقته، لا يجد من يقبلها منه، ثم ليقفن أحدكم بين يدي الله، ليس بينه وبينه حجاب ولا ‌ترجمان يترجم له، ثم ليقولن له: ألم أوتك مالا؟ فليقولن: بلى، ثم ليقولن: ألم أرسل إليك رسولا؟ فليقولن: بلى، فينظر عن يمينه فلا يرى إلا النار، ثم ينظر عن شماله فلا يرى إلا النار، فليتقين أحدكم النار ولو بشق تمرة، فإن لم يجد فبكلمة طيبة."

(‌‌‌‌باب وجوب الزكاة، باب الصدقة قبل الرد، 2/ 108 ط: المطبعة الكبرى الأميرية)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"واعلم بأنهم صرحوا بأن شرط لزوم النذر ثلاثة كون المنذور ليس بمعصية وكونه من جنسه واجب وكون الواجب مقصودا لنفسه قالوا فخرج بالأول النذر بالمعصية والثاني نحو عيادة المريض والثالث ما كان مقصودا لغيره حتى لو نذر الوضوء لكل صلاة لم يلزم وكذا لو نذر سجدة التلاوة."

(كتاب الصوم، باب مايفسد الصوم ومالايفسده،ج:2،ص:316،ط: رشيدية)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع  میں ہے:

"(ومنها) أن يكون ‌قربة ‌مقصودة، فلا يصح النذر بعيادة المرضى وتشييع الجنائز والوضوء والاغتسال ودخول المسجد ومس المصحف والأذان وبناء الرباطات والمساجد وغير ذلك وإن كانت قربا؛ لأنها ليست بقرب مقصودة ويصح النذر بالصلاة والصوم والحج والعمرة والإحرام بهما والعتق والبدنة والهدي والاعتكاف ونحو ذلك؛ لأنها قرب مقصودة."

(كتاب النذر، فصل:وأما شرائط الركن فأنواع، ج:5،ص:82، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144507100534

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں