بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گناہ سے توبہ کے بعد امامت کا حکم


سوال

زید کافی گناہ گار اِنسان ہے،  اُس کا ماضی بہت گناہ میں گزرا ہے،  دین سے دوری اور جہالت کی وجہ سے کافی گناہ  کیے، زنا کیا، لڑکے کے ساتھ بدفعلی کی اور بھی مختلف قسم کے گناہ  کیے۔اب اس کو اپنے گناہ کا علم ہوا ہے،  کافی شرمندہ رہتا ہے اور صدقِ دل سے توبہ تائب بھی ہو چُکا ہے اور  اب ماشاء اللہ داڑھی بھی رکھ لی ہے اور ہر قسم  کی معصیت کے کام سے کافی دور رہتا ہے ۔ قرآن شریف  تجوید کے ساتھ پڑھتا ہے،  لوگ اُسے نماز پڑھانے کے  لیے امام بنا دیتے ہیں،  یہ حتّی الامکان کوشش کرتا ہے کہ امام نا بنے،  بلکہ کوئی پرہیز گار آدمی امامت کرے، مقتدیوں پر اُس کا گناہ ظاہر بھی نہیں ہے اور مقتدی سب اُسے متّقی اور پرہیز گار سمجھتے ہیں۔کیا زید کے پیچھے نماز پڑھنا بلا کراہت درست ہے یا نہیں یا اُسے امامت نہیں کرنی  چاہیے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر زید  اپنی سابقہ زندگی پر نادم ہے ، اس نے اپنی سابقہ زندگی سے توبہ کرلی ہے ،آئندہ احکامِ شریعت کی پابندی کے ساتھ زندگی گزارنے کا عزم کرلیا ہے،  قرآن مجید تجوید کے ساتھ پڑھ سکتا ہے اور نماز کے مسائل سے واقف ہے  تو اس کی امامت بلاکراہت جائز ہے۔ 

الدر المختار میں ہے:

"(والأحق بالإمامة) تقديما بل نصبا مجمع الأنهر (الأعلم بأحكام الصلاة) فقط صحة وفسادا بشرط اجتنابه للفواحش الظاهرة، وحفظه قدر فرض، وقيل واجب، وقيل سنة (ثم الأحسن تلاوة) وتجويدا (للقراءة، ثم الأورع) أي الأكثر اتقاء للشبهات. والتقوى: اتقاء المحرمات."

(الدر المختار مع رد المحتار،كتاب الصلوٰة، باب الامامة،557/1، سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144308100258

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں