بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گناہ کرتے وقت کفر کے وسوسوں کا آنا


سوال

گناہ کا کام کرتے وقت زبان سے کہے بغیر اور عزم مصمم کیے بغیر دل میں کفر کا ہلکا سا خیال آیا تو کیا انسان کافر ہوجاتا؟

جواب

واضح رہے کہ غیر اختیاری وسوسہ آنا اور  اسے برا سمجھنا ایمان کی علامت ہے،حدیث مبارک میں ہے:میری امت کے لوگوں کے سینوں میں جو وسوسے آتے ہیں اللہ تبارک و تعالی ان سے درگزر فرماتے ہیں،جب تک کوئی شخص اس پرعمل یا اس کے بارے میں گفتگو نہ کرے،دوسری  حدیثِ مبارک میں ہے: " حضرت ابوہریرہ   رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں سے کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے کہ ہم اپنے دلوں میں کچھ خیالات ایسے پاتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی ان کو بیان نہیں کر سکتا، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا واقعی تم اسی طرح پاتے ہو؟(یعنی گناہ سمجھتے ہو) صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تو واضح ایمان ہے۔

صورتِ مسئولہ میں گناہ کا کام کرنا ناجائز اور حرام ہے ، اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے البتہ گناہ کرتے وقت صرف کفر کے وسوسے آنے سے انسان کافر نہیں ہوتا،لہذا وسوسے میں مبتلا بہ شخص کو چاہیے کہ گناہوں سے بچے، اور وساوس کی طرف التفات نہ کرے ،اور وساوس سے بچنے کے لیے اللہ تعالی سے بھی دعائیں کرتے رہیں،اور  وسوسہ آئے تو" لاحول ولاقوۃ اِلا باللہ اور أعوذ باللہ من الشیطان الرجیم"کا ورد رکھے۔

نیز " رَّبِّ اَعُوْذُبِکَ مِنْ هَمَزٰتِ الشَّیٰطِیْنِ وَاَعُوْذُ بِکَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنِ" کا کثرت سے ورد بھی ہر طرح کے شیطانی شکوک ووساوس کے دور کرنے میں مفید ہے۔

حدیث پاک میں ہے:

"وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: جاء ناس من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى النبي صلى الله عليه وسلم فسألوه: إنا نجد في أنفسنا ما يتعاظم أحدنا أن يتكلم به. قال: "أو قد وجدتموه" قالوا: نعم. قال:" ذاك صريح الإيمان". رواه مسلم."

(مشكاة المصابيح، باب الوسوسة، ج: 1، ص: 26، ط: المكتب الإسلامي)

ترجمہ: " حضرت ابوہریرہ   رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں سے کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے کہ ہم اپنے دلوں میں کچھ خیالات ایسے پاتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی ان کو بیان نہیں کر سکتا، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا واقعی تم اسی طرح پاتے ہو؟(یعنی گناہ سمجھتے ہو) صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تو واضح ایمان ہے۔"

حدیث پاک میں ہے:

"عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله تعالى تجاوز عن أمتي ما وسوست به صدورها ما لم تعمل به أو تتكلم."

( مشكاة المصابيح،باب الوسوسة، ج: 1، ص: 26، ط: المكتب الاسلامي)

ترجمہ:"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"میری امت کے لوگوں کے سینوں میں جو وسوسے آتے ہیں اللہ تبارک و تعالی ان سے درگزر فرماتے ہیں،جب تک کوئی شخص اس پرعمل یا اس کے بارے میں گفتگو نہ کرے۔"

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406100006

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں