بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1445ھ 14 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گم شدہ شوہر کی بیوی کا حکم


سوال

 اگر کوئی شوہر اپنی ملازمت چھوڑ کر بہتر مستقبل کے لیے کہیں چلا جائے ، بیوی سے کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں تھا،  بیوی کو جانے کا واضح مقصد اور مقام نہیں بتایا گیا ، لیکن جلد رابطے کا اشارہ دیا گیا تھا، آٹھ سال گزرنے کے بعد بھی گھر کے کسی بھی فرد سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔

اس صورت حال میں بیوی کے لیے شریعت میں کیا حکم ہے ۔

جواب

اگر کوئی شخص اس طرح لاپتہ ہوجائے کہ اس کے متعلق یہ واضح نہ ہو کہ وہ زندہ ہے یا مرگیا ہے، تو شریعت کی اصطلاح میں اس کو مفقود کہتے ہیں، مفقود کی بیوی کے لیے اصل حکم تو یہ ہے کہ وہ عفت وعصمت کے ساتھ اپنی زندگی گزارے، لیکن اگر اس کو اپنے اوپر عفت وپاکدامنی کا خوف ہو اوروہ مفقود شوہر کے نکاح  سے رہائی حاصل کرکے دوسری جگہ نکاح کرنا چاہے، تو درج ذیل صورت اختیار کرنے کی اجازت ہے:
    مفقود کی بیوی اپنا مقدمہ مسلمان قاضی کی عدالت میں پیش کرے اور گواہوں سے ثابت کرے کہ میرا نکاح فلاں شخص کے ساتھ ہوا تھا، پھر گواہوں سے اس کا مفقود اور لاپتہ ہونا ثابت کرے، اس کے بعد قاضی خود اپنے طور پر اس کی تفتیش وتلاش کرے، جہاں اس کے جانے کا غالب گمان ہو وہاں آدمی بھیجا جائے، اور جس جس جگہ جانے کا غالب گمان نہ ہو صرف احتمال ہو وہاں خط ارسا ل کرنے کو کافی سمجھے، اور خطوط ارسال کرکے تحقیق کرے، اور اگر اخبارات میں شائع کردینے سے خبر    ملنے کی امید ہو تو یہ بھی کرے۔
    الغرض تفتیش وتلاش میں پوری کوشش کرے، اور جب پتہ چلنے سے مایوسی ہوجائے تو قاضی، عورت کو چار سال تک مزید انتظار کا حکم دے، پھر ان چار سالوں کے اندر بھی اگر مفقود کا پتہ نہ چلے تو عورت قاضی کے پاس دوبارہ درخواست دائر کرے، جس پر قاضی اس کے مردہ ہونے کا فیصلہ سنا دے، اس کے بعد چار ماہ دس دن عدت گزار کر عورت کو دوسری جگہ نکاح کرنے کا اختیار ہوگا۔

    اور اگر عفت کا شدید خطرہ ظاہر کرے تو ایسی صورت میں چار سال کے انتظار کا حکم ضروری نہیں، بلکہ یہ دیکھا جائے گا کہ شوہر کے غائب ہونے کے وقت سے اب تک کم از کم ایک سال کا عرصہ گزرچکا ہے یا نہیں؟ اگر گزر چکا ہو تو قاضی مزید مہلت دیے بغیر اس وقت بھی نکاح ختم کرسکتا ہے، اسی طرح اگر زنا میں مبتلا ہونے کا خطرہ تو نہیں، لیکن مفقود کا اتنا مال موجود نہیں جو ان چار سالوں میں اس کی بیوی کے نان و نفقہ کے لیے کافی ہو، یا بیوی کے لیے مفقود کے مال سے نان ونفقہ حاصل کرنا مشکل ہو تو اس صورت میں اگر نان ونفقہ دینے کے بغیر کم از کم ایک ماہ گزرا ہو تو قاضی نکاح ختم کرسکتا ہے۔

مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی صاحب نور اللہ مرقدہ تحریر فرماتے ہیں:

’’اس صورت میں عورت کا شرعی حکم یہ ہے کہ عدالت میں دعویٰ تفریق بوجہ مفقود الخبری شوہر دائر کرے، حاکم بعد تحقیقات ایک سال کی مدت انتظار کے لیے مقرر کردے، اگر اس عرصہ میں زوجِ غائب نہ آئے تو نکاح فسخ کردے، تاریخِ فسخ سے عدت گزار کر دوسرا نکاح کرلے۔ ایک سال کی مدت مقرر کرنا ضروری ہے، ذرائعِ رسل ورسائل کا وسیع ہونا اس شرط کے خلاف نہیں ہے، اور نہ ذرائع کی وسعت اس امر کو لازم ہے کہ گم شدہ شوہر کا پتا معلوم ہوجائے کہ وہ زندہ ہے کہ نہیں،آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص کے متعلق معلوم کرنے کے لیے کہ وہ زندہ ہے یا نہیں، تمام ذرائع استعمال کرلیے جاتے ہیں اور فیصلہ کرلیا جاتاہے، لیکن بعد میں فیصلہ غلط ہوتاہے۔

غرض یہ کہ ایک سال کی مدت اس مصلحت کے لیے ہے کہ امکانی حد تک شوہر کے متعلق کسی نتیجہ پر پہنچاجائے۔ واللہ تعالیٰ اعلم‘‘

(ریجسٹر نمبر:1، صفحہ 27)

فتاوی شامی میں ہے:

"قلت: ويؤيده ما يأتي قريبا في المسخر، وكذا ما في الفتح من باب المفقود لايجوز القضاء على الغائب إلا إذا رأى القاضي مصلحة في الحكم له وعليه فحكم فإنه ينفذ؛ لأنه مجتهد فيه اهـ".

(کتاب القضاء،ج:5،ص:414،ط:سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"المفقود هو الرجل الذي يخرج في وجه فيفقد ولا يعرف موضعه ولا تستبين حياته ولا موته أو يأسره العدو فلا يستبين موته ولا قتله."

(كتاب الفرائض،ج:6،ص:456،ط:دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502101433

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں