GTM ایک آنلائن پیسے کمانے کی ویب سائٹ اور ایپ ہے ،اس ایپ میں کسی میمبر کے بھیجے گئے لِنک کے ذریعے رجسٹر ہونا ہوتا ہے، اور بعد میں لاگ اِن ہوتے ہیں، اس میں مختلف قسم کے پیکجز ہیں،انٹرن سے لے کر vip 8 تک ، vip1 کے لیے 5000 روپیہ جمع کرنا ہوتا ہے، جہاں پانچ ٹاسک دیتے ہیں،اور ہر ٹاسک کا چالیس روپے دیتے ہیں، یعنی روزانہ فکس چھ سو روپے۔
vip2 کے لیے 50000 جمع کرنا ہوتا ہے،وہی روزانہ ٹاسک کرنا ہوتا ہے،اور روزانہ 2000 فکس دیتے ہیں۔
ٹاسک یہ ہوتا ہے کہ یوٹیوب کا لنک آجاتا ہے، وہاں پر اشتہار کا چینل آجاتا ہے،اس کو سبسکرائب اور لائک کرکے سکرین شاٹ لے کر ایپ میں اپلوڈ کیا جاتا ہے،اس طرح ایک ٹاسک مکمل ہوتا ہے۔
مزید یہ کہ آپ کے بھیجے لنک سے کوئی رجسٹرڈ ہو تو اس کو بونس بھی ملتا ہے، اور زیادہ پیسے جمع کرنے کے مطابق روزانہ زیادہ فکس پیسہ ملتا ہے، حتی کے روزانہ لاکھ سے زیادہ بھی کما رہے ہیں۔
آپ مہربانی فرما کر اس کا کوئی شرعی حل بتا دیں،کہ یہ حلال ہے یا حرام ہے؟ کیوں کہ اگر یہ غلط ہے تو آج کل سارے اس میں ملوث ہو گئے ہیں ،ان کو کیا کرنا چاہیے؟
سائل کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق مذکورہ کمپنی کے ذریعے پیسہ کمانا شرعا جائز نہیں ،جس کی بنیادی وجوہات یہ ہیں :
1) کمپنی کی طرف سے شروع میں انویسٹمنٹ کے نام سے مخصوص رقم لی جاتی ہے، جب کہ یہاں ایسا کوئی کاروبار نہیں ہوتا، جو کام (task) دیا جاتا ہے، اس کی الگ سے اجرت دی جاتی ہے، لہذا انویسٹمنٹ کے نام سے لی جانے والی رقم بغیر کسی چیز کے عوض کے طور پر لی جارہی ہے، اگر یہ رقم سیکیورٹی ڈپازٹ کے طور پر نہیں لی جاتی اور بعد میں واپس نہیں کی جاتی، تو یہ رشوت کے حکم میں داخل ہے۔
2) ان ویڈیوز میں جاندار کی تصاویر ہوتی ہیں جو شرعًا ناجائز ہیں، نیز بہت سے غیر شرعی اُمور مثلا ناچ گانے، موسیقی اور خواتین کے ویڈیوز/تصاویر وغیرہ شامل ہوتی ہیں، جنہیں دیکھنا، لائک کرنا اور اس کی تشہیر و ترویج کرنا شرعًا جائز نہیں ہے۔
3) مصنوعی طریقے سے چینلز اور ویڈیوز کی ریٹنگ بڑھائی جاتی ہے، جس سے عام لوگوں کو دھوکا دیا جاتاہے۔
4) محض ویڈیوز لائک کرنا سبسکرائب کرنا کوئی ایسا مقصودی کام نہیں ہے کہ جس کے عوض اجرت لی جاسکے۔
5) آگے ممبرز بڑھانے کی صورت میں کمپنی کی طرف سے جو بونس دیا جاتا ہے، وہ انہی غلط کاموں کی تشہیر و ترویج کا معاوضہ ہے، اس وجہ سے درست نہیں ہے۔
لہذا اوپر ذکر کی گئی شرعی خرابیوں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے مذکورہ ایپ کے ذریعے پیسے کمانا شرعًا درست نہیں ہے، اس سے اجتناب لازم ہے، اس کی بجائے کوئی اور جائز ذریعہ آمدن اختیار کرنا چاہیے۔
جو لوگ اس کام میں ملوث ہیں ،ان کو چاہیے کہ فورًا اس کام کو چھوڑدیں ۔
شعب الإيمان میں ہے:
"عن سعيد بن عمير الأنصاري قال: سئل رسول الله صلّى الله عليه وسلّم أيّ الكسب أطيب؟ قال:عمل الرجل بيده، وكلّ بيع مبرور."
(باب التوكل بالله عز وجل والتسليم لأمره تعالى في كل شيء، ج:٢، ص:٨٤، ط:دار الكتب العلمية)
رد المحتارمیں ہے:
"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام."
(باب الإجارۃ الفاسدہ، ج:٦، ص:٦٣، ط: سعید)
الدر المختار مع رد المحتارمیں ہے:
"(هي) لغة: اسم للأجرة وهو ما يستحق على عمل الخير ولذا يدعى به، يقال أعظم الله أجرك. وشرعا (تمليك نفع) مقصود من العين (بعوض).
(قوله مقصود من العين) أي في الشرع ونظر العقلاء."
(کتاب الاجارۃ، ج:٤، ص:٦، ط: دار الفکر)
الموسوعة الفقهية الكويتية"میں ہے:
"الإجارة على المنافع المحرمة كالزنى والنوح والغناء والملاهي محرمة وعقدها باطل لا يستحق به أجرة. ولا يجوز استئجار كاتب ليكتب له غناء ونوحا؛ لأنه انتفاع بمحرم."
(إجارة، الإجارة على المعاصي والطاعات، ج:١، ص:٢٩٠، ط: وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144504100737
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن