اگر جی ٹی ایم میں جاندار چیز نا ہو پھر کیسا ہے؟
اگر جی ٹی ایم سے مراد اشتہارات ومارکیٹنگ کی سروسز فراہم کرنے والی "جی ٹی ایم ایپلیکیشن" ہے تو اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ اس سے نفع کمانا جائز نہیں، اس لیے کہ اس میں کئی قسم کے مفاسد ہیں:
1: اس میں ویڈیوز کو لائک اور سبسکرائب کرنے کا ٹاسک دیا جاتا ہے، اور ان ٹاسک کو پورا کرنے پر رقم حاصل ہوتی ہے، اور محض ویڈیوز لائک کرنا سبسکرائب کرنا کوئی مقصودی کام نہیں ہے ، لہذا اس کے عورض اجرت لینا جائز نہیں ہے۔
2: ان ویڈیوز میں جان دار کی تصاویر، ناچ گانے اور میوزک وغیرہ ہوتا ہے، اور یہ سب ناجائز امور ہیں۔
3: مصنوعی طریقہ سے چینل کے ریٹنگ کو بڑھانے کے لیے ویڈیوز کو لائیک کرنا ، یہ دوسروں کو دھوکہ دینے کا سبب ہے۔
2- اس میں ملٹی لیول مارکیٹنگ کے ذریعے بھی رقم حاصل ہوتی ہے، جوکہ جائزنہیں ہے۔
3- اس ایپ میں کئی قسم کے پیکج ہیں، کسی ایک پیکج کو منتخب کرنے کے بعد اس پیکج سے متعلق مختص رقم دی جاتی ہے، تو شرعی اعتبار سے یہ نہ تو مضاربت ہے اور نہ ہی کوئی اور شرعی معاملہ۔
لہذا مذکورہ ایپ سے رقم کمانا جائز نہیں، نیز مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ "جی ٹی ایم ایپلیکیشن" کے ناجائز ہونے کی وجہ سے صرف جان دار کی تصاویر نہیں ہیں، بلکہ اور بھی متعدد وجوہات کی وجہ سے یہ ناجائز ہے۔
تفسیر ابن کثیر میں ہے:
"{ولا تعاونوا على الاثم و العدوان}، یأمر تعالی عبادہ المؤمنین بالمعاونة علی فعل الخیرات وهوالبر و ترك المنکرات و هو التقوی، و ینهاهم عن التناصر علی الباطل و التعاون علی المآثم والمحارم."
(2/ 12 ، الآیة: 1، ط: دار طيبة)
الدرالمختار میں ہے:
"وفي السراج ودلت المسألة أن الملاهي كلها حرام ويدخل عليهم بلا إذنهم لإنكار المنكر قال ابن مسعود صوت اللهو والغناء ينبت النفاق في القلب كما ينبت الماء النبات. قلت: وفي البزازية استماع صوت الملاهي كضرب قصب ونحوه حرام لقوله - عليه الصلاة والسلام - «استماع الملاهي معصية والجلوس عليها فسق والتلذذ بها كفر» أي بالنعمة فصرف الجوارح إلى غير ما خلق لأجله كفر بالنعمة لا شكر فالواجب كل الواجب أن يجتنب كي لا يسمع لما روي «أنه - عليه الصلاة والسلام - أدخل أصبعه في أذنه عند سماعه» وأشعار العرب لو فيها ذكر الفسق تكره اهـ أو لتغليظ الذنب كما في الاختيار أو للاستحلال كما في النهاية."
(6 /348، کتاب الحظر والاباحة، ط: سعيد)
فتاوی شامی میں ہے:
"وماکان سببًا لمحظور محظور... و نظیره کراهة بیع المعازف لان المعصیة تقام بها عینها."
(6/ 350، كتاب الحظر والإباحة، ط: سعید)
فتاوی شامی میں ہے:
"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام."
(6/ 63، کتاب الاجارہ، باب الاجارۃ الفاسدہ، مطلب فی اجرۃ الدلال، ط: سعید)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144504100321
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن