بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جی ٹی ایم ایپلیکیشن سے نفع کمانے کا حکم


سوال

 پلے اسٹور پر ایک اپلیکیشن ہے جی ٹی ایم کے نام سے، اس میں پانچ ہزار،پندرہ ہزار ، مخصوص رقم طے کی ہوئی ہے اپلیکشن والو ں نے کہ اتنے پیسے لگا سکتے ہیں، اس سے کم زیادہ نہیں اور پانچ ہزار پر ہر مہینہ 6ہزار روپے دیتےہیں، پیسے اس شرط پر دیتے ہیں کہ وہ ہر روز ایک ٹاسک دیتے ہیں، جس میں یوٹیوب کی پانچ ویڈیو دیکھ کر لائیک کرنا ہوتا ہے اور اس چینل کو سبسکرائب کر کے اسکرین شاٹ لے کر انہیں بھیجنا ہوتا ہےاور وہ اس کام کے ہر روز 200 روپے دیتے ہیں جو مہینے کے چھ پزار روپے بنتے ہیں۔ اگر یہ کام نہیں کریں گے تو پیسے نہیں ملتے یہ کام کرنے پر پیسے دیتے ہیں اور چھ مہینے بعد 5000ہزار جو شروع میں لگائے تھے وہ واپس کر دیتے ہیں۔ آیا یہ کہ یہ پیسے ہمارے لیے حرام ہوں گے یا حلال؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں "جی ٹی ایم ایپلیکیشن" سے نفع کمانا جائز نہیں، اس لیے کہ اس میں کئی قسم کے مفاسد ہیں:

1- اس میں ویڈیوز کو لائک اور سبسکرائب کرنے کا ٹاسک دیا جاتا ہے، اور ان ٹاسک کو پورا کرنے پر رقم  حاصل ہوتی ہے، اور  یہ  ویڈیوز  جان  دار  کی تصویر  پر  بھی  مشتمل  ہوتی  ہے،  اور جان دار کی ویڈیوز کو دیکھنا ہی شرعًا جائز نہیں، نیز بغیر کسی مقصد کے چینل کے ریٹنگ کو بڑھانے کے  لیے  ویڈیوز کو  لائیک کرنا دھوکا  ہے۔

2- اس میں ملٹی لیول مارکیٹنگ کے ذریعے بھی رقم حاصل ہوتی ہے، جوکہ جائزنہیں ہے۔

3- اس ایپ میں کئی قسم کے پیکج ہیں، کسی ایک پیکج کو منتخب کرنے کے بعد اس پیکج سے متعلق  مختص رقم دی جاتی ہے، تو شرعی اعتبار یہ نہ تو مضاربت ہے اور نہ ہی کوئی اور شرعی معاملہ۔

لہذا مذکورہ ایپ سے رقم کمانا جائز نہیں۔

الموسوعة الفقهية الكويتية" میں ہے:

"الإجارة ‌على ‌المنافع المحرمة كالزنى والنوح والغناء والملاهي محرمة وعقدها باطل لا يستحق به أجرة. ولا يجوز استئجار كاتب ليكتب له غناء ونوحا؛ لأنه انتفاع بمحرم."

(‌‌إجارة‌‌، الإجارة على المعاصي والطاعات: 1/ 290، ط: وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503100563

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں