بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گٹکا بیچنے کاحکم


سوال

کیا گٹکا بیچ سکتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ گٹکامضرِّ  صحت ہونے کی وجہ سے قانونی طور پر  اس کی  خرید و فروخت سخت ممنوع ہے،  جس پر قانوناً سزا بھی دی جاتی ہے، لہذا حکومتی قانون کی پاس داری اور حفظانِ صحت کا لحاظ کرتے ہوئے گٹکا  کھانے اور اس کے بیچنے سے احتراز ضروری ہے۔

تفسیر قرطبی میں ہے:

"{ ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة } [الآية :195]التقدير لا تلقوا أنفسكم بأيديكم كما تقول : لا تفسد حالك برايك والتهلكة ( بضم اللام ) مصدر من هلك يهلك هلاكا وهلكا وتهلكة أي لا تأخذوا فيما يهلككم. وقال الطبري : قوله: {ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة} عام في جميع ما ذكر لدخوله فيه إذ اللفظ يحتمله."

(سورة البقرة،ج:2،:359،ط:دارالکتب العلمیة)

حدیث شریف میں ہے:

"عن أبي هريرة أنّ رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: آية المنافق: ثلاث إذا حدّث كذب، و إذا وعد أخلف، و إذا أوتمن خان".

(مشکاۃ المصابیح، کتاب الإیمان، باب الکبائر وعلامات النفاق، رقم الحدیث:55، ج:1، ص:23،  ط:المکتب الاسلامی)

بدائع الصنائع میں ہے:

"لأنّ طاعة الإمام فيما ليس بمعصية فرض، فكيف فيما هو طاعة؟"

(كتاب السير، فصل فى أحكام البغاة، ج:9، ص :453، ط:دارالحديث. القاهرة)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144405100820

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں