بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گروپ لیڈر کی شرعی حیثیت


سوال

 معلوم یہ کرنا ہے کہ میں پہلے گروپ لیڈر بن کر عمرہ کرانے کے لیے جاتا تھا،اس کی ترتیب یہ ہوتی تھی کہ اپنے ساتھیوں کو بتادیتا تھاکہ اس سال عمرے پر ٹوٹل خرچہ اتنا ہوگا،جس میں ٹکٹ،ویزہ،ٹرانسپورٹ اور کھانا شامل ہوتا تھا،یہ حضرات اس پر راضی ہوکر جاتے تھے اور وہ اس عمرے کا خرچہ ادا کردیتے تھے،جو حضرات روز عمرہ کرنے جاتے تھےوہ اپنا کرایہ خود ادا کرتے تھے،اس گروپ کی تمام تر کھانے پینے کی ذمہ داری میری ہوتی تھی،باقی حضرات صرف کھا، پی کر آرام کرتے تھے۔

اب یہ پوچھنا ہے کہ عمرے کے  سفر میں  اخراجات کے بعد اگر کچھ رقم بچ جائے،تواس کا استعمال میرے لیے جائز ہےیا نہیں؟

2۔دوسری بات وہ کہ اس سال میں ابھی رمضان کا عمرہ کرنے گیا(البتہ میں اس بار گڑوپ لیڈر بن کر نہیں گیا)ایک صاحب میرے ساتھ شامل ہوگئے،ان صاحب کو میں نے تمام تر تفصیل بتادی تھی ،کہ ہم نے ایک پیکج لیا تھا،وہ رہائش بہت دور دے رہا تھا،میں نے ان صاحب سے کہا کہ اگر ہم کچھ اضافی رقم شامل کریں تو ہم کو قریب رہائش اپنی مرضی کی مل جائے گی ،جس سے ہمیں حرم آنے جانے میں آسانی ہوجائے گی اور مدینہ منورہ سےہم اپنی ٹرانسپورٹ سے واپس جدہ آئیں گے،وہ صاحب اس پر راضی ہوگئے،تو میں نے اپنی ٹوٹل رقم کے حساب سے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی رہائش کا انتظام کرلیا،مکہ مکرمہ میں تو یہ خوش رہے،مگر مدینہ منورہ میں اس بات پر ناراض ہوگئے کہ آپ نے رہائش بہت پرانی عمارت  (بنگالی پاڑے)میں جولی ہے،یہ اچھی نہیں ہے،اس میں وہ صاحب نقص نکالتے رہے کبھی کہتے کہ بستر میں کھٹمل ہیں، کبھی کہتے کہ آپ نے اس کا کرایہ زیادہ دیا ہے،جب کہ اسی کمرے میں اور افراد آرام سے رہ رہے تھے۔

محترم مفتی صاحب یہ بات آپ کے علم میں ہوگی حرمین میں جو رہائش لی جاتی ہے ،وہ پہلے ہم سے پوچھتے ہیں کہ کتنے یوم کے لیےرہائش لینی ہے اس کے بعد وہ کمرے کا کرایہ بتاتے ہیں ،اب آپ کی مرضی  کہ آپ  لیں  یا نہیں ،میں نے 7یوم کے لیے مدینہ میں رہائش لی اور اس کا کرایہ بھی ادا کردیا ،اب یہ صاحب دو دن تک مجھے تنگ کرتے رہے کہ "اس سفر میں جملہ اخراجات کتنے ہوئے ،ٹکٹ   ویزہ اور مکہ مدینہ کی رہائش کتنے میں ہوئی،کیوں کہ آپ نے رقم تخمیناً  لی ہے تجارتاً نہیں ،کہتے ہیں کہ آپ  اس پر شرعاً کسی قسم کا کمیشن بھی نہیں لے سکتے کیوں کہ آپ  اس پیشے سے وابستہ نہیں ہیں ،اور سفر سے قبل واضح ہوچکا تھا کہ جو بھی خرچہ ہوگا برابری کی بنیاد پر تقسیم ہوگا ،تو اب از روئے شریعت جملہ اخراجات واضح نا کرنا جائز نہیں ،لہذا خرچہ لی گئی رقم سے زیادہ ہوا ہے تو آپ اس کے مانگنے کے مجاز ہیں اور کم ہوا ہے تو بقایا رقم واپس کرنا لازم ہے" میں نے ان صاحب کو اس سفر کا تمام حساب بنا کر دیا تو رقم اخراجات  سے زیادہ بنتی تھی ،اب یہ صاحب کہتے ہیں کہ میں اس کمرے میں قیام نہیں کرسکتا آپ مجھے 4یوم کی رقم واپس کریں،اب پوچھنا یہ ہے کہ یہ صاحب اس رقم کو واپس مانگنے کے حق دار ہیں ؟جبکہ میں کمرے کا کرایہ ادا کرچکا ہوں ؟

میں نے پھر بھی ان کا خیال کیا اور ان کو 300ریال کی رقم واپس کردی ،یہ بتائیں کہ یہ رقم لینا ان صاحب کے لیے جائز ہے؟اگر نہیں تو ان صاحب کو مجھے وہ 300 ریال واپس کرنی چاہیے؟

جواب

1۔ صورت  مسئولہ میں اگر آپ عمرہ کا گروپ تشکیل دے کر اس کی جملہ ضروریات اور سہولیات فراہم کرنے کی ذمہ داری لیتے ہیں اور سفر سے قبل جانے والوں سے ایک رقم طے کرلیتے ہیں تو ایسی صورت میں جو رقم بچ جائے وہ آپ استعمال کرسکتے ہیں 

فتاوی شامی میں ہے:

مطلب في أجرة الدلال [تتمة]

"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا ؛لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام".

(كتاب الإجارة،مطلب في أجرة الدلال،ج:6،ص:63،ط: سعيد)

2۔دوسری صورت میں چوں کہ سائل  کی حیثیت محض ایک وکیل اور معاون کی تھی، اور وکیل اور معاون کے لیےدوسرے فریق کی اجازت کے بغیر  کمیشن رکھنا ٹھیک نہیں ہے ،لہذا مذکورہ مسئلہ میں مذکورہ شخص کااخراجات کی تفصیل کا مطالبہ کرنا  درست تھا،باقی جہاں تک رہائش پسند نہ آنے پر رقم  واپسی کے مطالبہ کا مسئلہ ہے،تو اس میں تفصیل یہ ہے کہ اگر سائل نے رہائش لینے سے قبل یہ واضح کردیا تھا کہ رہائش کتنے فاصلے پر ہوگی ،اورکس نوعیت کی ہوگی،اور پھر رہائش اسی طرح تھی جس طرح بتایا تھا تو ایسی صورت میں اس شخص کا دوبارہ رقم طلب کرنا درست نہیں تھا،اور اگر پہلے سے ساتھی کو نہیں بتایا تھا کہ رہائش  کہاں اور کس نوعیت کی ہے، تو ایسی صورت میں رہائش گاہ پسند نہ آنے کی صورت میں اسے اختیار تھا کہ رقم واپس لے کر اپنی رہائش کا الگ انتظام کرے ،بغیر رضامندی رہائش لے کر رقم جمع کرنا یہ سائل کی غلطی ہے،بہر صورت جب سائل نے خیر خواہی اور ہمدردی کے جذبات کے تحت تین سو ریال واپس کردیے تو مذکورہ شخص اس کا مالک بن گیا تھا ،اب اس رقم کو واپس کرنا اس کے ذمہ لازم نہیں ہے۔البتہ اگر دونوں فریق ایک دوسرے کاخیال رکھتے ہوئے کسی درمیانی صورت پر راضی ہو کر معاملہ حل کرلیں تو دونوں کے لیے دلوں  کی صفائی اور اجر وثواب کا ذریعہ ہوگا۔

البحر الرائق میں ہے:

"وذكر الشارح أنه إذا أنقد ‌من ‌مال ‌الموكل فيما اشتراه لنفسه يجب عليه الضمان ،وهو ظاهر في أن قضاء الدين بمال الغير صحيح موجب لبراءة الدافع موجب للضمان وقد ذكر الشارح في بيع الفضولي أن من قضى دينه بمال الغير صار مستقرضا في ضمن القضاء فيضمن من مثله إن كان مثليا وقيمته إن كان قيميا اهـ".

(كتاب الوكالة،باب الوكالة بالبيع والشراء،ج:7،ص:160،ط: دار الكتاب الإسلامي)

اللباب فی شرح الکتاب میں ہے:

"الصلح على ثلاثة أضرب: صلح مع إقرار، وصلح مع سكوت وهو أن لا يقر المدعى عليه ولا ينكره، وصلح مع إنكار، وكل ذلك جائز"

"(وكل ذلك) المذكور (جائز)بحيث يثبت الملك للمدعى في بدل الصلح، وينقطع حق الاسترداد للمدعى عليه؛ لأنه سبب لرفع التنازع المحظور، قال تعالى: {ولا تنازعوا} فكان مشروعا".

(كتاب الصلح،ج:2،ص:163،ط: دار الکتب العلمیة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144410100467

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں