بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گروپ ہیلتھ انشورنس کا حکم


سوال

ہم جس کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں اگر وہ  پوری فیملی کے لئے ماہانہ تنخواہ سے نہایت کم کٹوتی پر گروپ  ہیلتھ انشورنس  دیتی ہو تو کیا اسے لینے کی کوئی گنجائش ہے ؟ کمپنی کا کہنا ہے کہ ملازم کی تنخواہ سے  جوکٹوتی  ہوتی اس کے  ساتھ کمپنی  اپنی طرف سے بھی  رقم ملا کر انشورنس کمپنی میں جمع کرتی ہے اور علاج  ساری جمع شدہ رقم سے ہوتا ہے، لیکن انشورنس کمپنی کے ذریعے ہوتا ہے۔

جواب

واضح رہے کہ مروجہ انشورنس  کی تمام کمپنیوں کا معاملہ بھی  بینک کے کاروبار کی طرح ایک سودی معاملہ ہے،  دونوں میں صرف شکل وصورت کا فرق ہے،نیز انشورنس کے اندر  "سود" کے  ساتھ " جوا" بھی پایا جاتا ہے، اور اسلام میں یہ دونوں حرام ہیں، ان کی حرمت قرآن کریم اور احادیث ِمبارکہ سے ثابت ہے۔

جہاں تک ہیلتھ انشورنس کا سوال ہے،تو عموماً اس کی دو صورتیں رائج ہیں:

(1)  اختیاری  (2)  جبری

(1) اختیاری:اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی مرضی واختیار سے انشورنس کروائے ،متعلقہ ادارے یا کمپنی کی طرف سے  انشورنس کروانا اس پرلازم نہ ہو۔

اس کا حکم یہ ہے کہ انشورنس كی مد ميں ملازم کی تنخواہ کی رقم اور کمپنی نے جتنی رقم جمع کروائی ہے، اُن دونوں کے مجموعہ رقم كے بقدر علاج معالجہ كرانا درست ہے،اس سے زائدسود کی رقم سے  علاج كرانا شرعًا ناجائز اور حرام ہے۔

(2)جبری:اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی مرضی واختیار سے انشورنس نہیں کروائے،بلکہ جس  ادارے یاکمپنی   میں کوئی کام کرتا ہے  وہ ادارہ یاکمپنی اپنے ملازمین کا انشورنس  خود کرواتا ہے یا پھر ادارہ/کمپنی اپنے ملازمین کو انشورنس کروانے کا پابند کرے،اس کی پھر تین صورتیں رائج ہیں۔

(1 )پہلی صورت یہ ہے کہ متعلقہ  ادارے یاکمپنی  کا ملازم کسی کلینک یا ہسپتال سے علاج کراتا ہے اور علاج کے اخراجات کلینک یا ہسپتال والے براہِ راست انشورنس کمپنی سے وصول کرتے ہیں، اس صورت میں اگرچہ متعلقہ ادارے  یا کمپنی کو انشورنس کے معاملے کا گناہ ہوگا، لیکن  ملازم کے لیے جائز ہے کہ وہ  علاج کرائے؛ کیوں کہ علاج کے خرچ  کی ذمہ داری متعلقہ ادارےیاکمپنی پر ہے۔
(2 )  دوسری صورت یہ ہے کہ متعلقہ  ادارے /کمپنی کا ملازم کسی کلینک یا ہسپتال سے علاج کراتا ہے اور کلینک یا ہسپتال والے علاج کے اخراجات اس ملازم کےمتعلقہ ادارے /کمپنی سے وصول کرتے ہیں اور پھر وہ ادارہ یاکمپنی اس علاج  کے اخراجات انشورنس کمپنی سے وصول کرلیتی ہے، یہ صورت بھی ادارے/کمپنی کے لیے جائز نہیں ہے، مگر ملازم کے لیےاس طرح علاج کروانا  جائز ہے۔

(3 ) تیسری صورت یہ ہے کہ متعلقہ ادارے /کمپنی کا ملازم کلینک یا ہسپتال کی فیس خود ادا کرے، لیکن متعلقہ ادارے /کمپنی نے اس کو پابند کردیا ہو کہ وہ بل کی رقم خود جاکر انشورنس کمپنی سے وصول کرے، اس صورت میں کمپنی نے جتنی رقم جمع کرائی ہے اس کا لیناجائز ہوگا، اس سے زائد لینا جائز نہیں ہوگا۔

ارشاد ِباری تعالیٰ ہے:

{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصابُ وَالْأَزْلامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ} [المائدة: 90] 

ترجمہ:"اے ایمان والو بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر  یہ سب گندی باتیں ہیں،شیطانی کام ہیں،سو ان سے  بالکل الگ رہو  تاکہ تم کو فلاح ہو۔"(بیان القران)

تفسیرِ ابن کثیر  میں ہے:

"ثم قال تعالى: (وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُؤُسُ أَمْوالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ)  أي بأخذ الزيادة ولا تظلمون أي بوضع رؤوس الأموال أيضا، بل لكم ما بذلتم من غير زيادة عليه ولا نقص منه."

(سورةالبقرة، الآية: 279، 554/1، ط: دار الكتب العلمية)

مسلم شریف میں ہے:

"عن جابرقال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌آكل ‌الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه وقال: هم سواء."

(کتاب المساقاۃ، باب لعن آكل الربا ومؤكله، 1219/3، ط: دارإحیاءالتراث العربي)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص."

(کتاب الکراھیة، فصل في البیع، 6/403، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100132

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں