میں ایک سرکاری ملازم ہوں، میرا سوال یہ ہے کہ میں اپنے ۲۳ سال کی ڈیوٹی کے دوران گروپ انشورنس کرواتا رہا ہوں، لہٰذا ہمیں گروپ انشورنس کا پیسہ (ہماری رقم) وصول کروایا جائے، یا اس کا طریقہ کار بتایا جائے؟
مذکورہ انشورنس کے جواز وعدمِ جواز کے متعلق حکمِ شرعی یہ ہے کہ بصورتِ مسئولہ اگر سائل کو اپنی تنخواہ میں سے رقم کی کٹوتی کروا کر ’’گروپ انشورنس‘‘ کی مد میں جمع کروانے کا اختیار تھا، اور یہ امر ٗ سائل پر اس طرح لازم نہیں تھا کہ سائل کے چاہتے، نہ چاہتے تنخواہ میں سے کٹوتی ہوجاتی ہو، تو اس صورت میں مذکورہ معاملہ ٗ سود پر مشتمل ہونے کی وجہ سے کرنا ہی جائز نہیں تھا۔
اب چوں کہ سائل رقم جمع کراہی چکے ہیں، تو فی الحال انہیں صرف اپنی اصل رقم لینے کا ہی اختیار ہوگا، زائد رقم لینا جائز نہیں ہے، اور اگر لے لی ہو، تو مستحقِ زکاۃ فقراء پر صدقہ کرنا ضروری ہے۔
تاہم اگر تنخواہ میں سے مخصوص رقم کی کٹوتی اختیاری نہ ہو، بلکہ جبری ہو، تو اس صورت میں کٹوتی شدہ رقم کے ساتھ ٗ اضافی رقم وصول کرنا اور اسے استعمال کرنا بھی حلال ہے، البتہ اضافی رقم چوں کہ بعض ایسے ذرائع سے بھی حکومت کو حاصل ہوتی ہے ٗ جو شرعاً جائز نہیں ہیں، اس لیے اضافی رقم کو استعمال نہ کرنا بہتر ہے۔
"الفتاوي الهندية" میں ہے:
"قال محمد رحمه الله تعالى في كتاب الصرف إن أبا حنيفة رحمه الله تعالى كان يكره كل قرض جر منفعة، قال الكرخي هذا إذا كانت المنفعة مشروطة في العقد بأن أقرض غلة ليرد عليه صحاحا أو ما أشبه ذلك، فإن لم تكن المنفعة مشروطة في العقد فأعطاه المستقرض أجود مما عليه فلا بأس به."
(کتاب الكراهية، الباب التاسع عشر، ج: ٣، ص: ٢٠٢، ط: رشيدية)
"البحر الرائق"میں ہے:
"(قوله والأجرة لا تملك بالعقد) . . . (قوله بل بالتعجيل أو بشرطه أو بالاستيفاء أو بالتمكن) يعني لا يملك الأجرة إلا بواحد من هذه الأربعة."
(كتاب الإجارة، ج: ٧، ص: ٣٠٠، ط: دار الكتاب الإسلامي)
"حاشية ابن عابدين" میں ہے:
"فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه، وإن كان مالا مختلطا مجتمعا من الحرام ولا يعلم أربابه ولا شيئا منه بعينه حل له حكما، والأحسن ديانة التنزه عنه ففي الذخيرة: سئل الفقيه أبو جعفر عمن اكتسب ماله من أمراء السلطان ومن الغرامات المحرمات وغير ذلك هل يحل لمن عرف ذلك أن يأكل من طعامه؟ قال أحب إلي في دينه أن لا يأكل ويسعه حكما إن لم يكن ذلك الطعام غصبا أو رشوة."
(کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، ج: ٥، ص: ٩٩، ط: سعید)
’’کفایت المفتی‘‘ میں ہے:
’’جو رقم تنخواہ میں سے لازمی طور پر کاٹ لی جاتی ہے، اور جو رقم بونس کے نام سے زیادہ بڑھائی جاتی ہے، اور جو رقم ان دونوں رقموں پر سود کے نام سے لگائی جاتی ہے، ان تینوں رقموں کو لینا مسلم ملازمین یا ان کے ورثاء کے لیے جائز ہے، اور وصول ہونے سے پہلے اس مجموعی رقم پر زکاۃ ادا کرنا واجب نہیں، بونس تو عطیہ ہی ہے، مگر وہ رقم جو سود کے نام سے لگائی جاتی ہے ٗ وہ شرعاً سود کی حد میں داخل نہیں، وہ بھی عطیہ ہی کا حکم رکھتی ہے۔‘‘
(کتاب الربوا، ۹۶/۸، ’’تنخواہ سے کاٹی ہوئی رقم پر سود لینے اور اس پر زکاۃ کا حکم‘‘، ط: دار الاشاعت، کراچی)
’’امداد الفتاویٰ‘‘ (جدید) میں ہے:
سوال: ’’گورنمنٹ دریافت کرتی ہے کہ ہر ملازمین سرکار اپنی تنخواہ میں سے ساڑھے چھ سے ساڑھے بارہ روپیہ صدی کے حساب سے ہر مہینہ میں خزانۂ سرکار میں جمع کریں، اور وہ کل رقم بعد علیحدہ ہونے نوکرئ سرکاری کے ٗ خواہ پینشن ہونے پر یا خود نوکری چھوڑ دے، اس وقت کل روپیہ اس کا بمعہ چار روپیہ فی صدی سود کے ٗ سرکار واپس دے گی؟‘‘
الجواب: ’’جواب مسئلہ کا یہ ہے کہ تنخواہ کا کوئی جزو اس طرح وضع کرا دینا، اور پھر یک مشت وصول کر لینا ٗ اگرچہ اس کے ساتھ ’’سود‘‘ کے نام سے کچھ رقم ملے، یہ سب جائز ہے، کیوں کہ در حقیقت وہ ’’سود‘‘ نہیں ہے، اس لیے کہ تنخواہ کا جو جزو وصول نہیں ہوا، وہ اس ملازم کی ملک میں داخل نہیں ہوا، پس وہ رقمِ زائد ٗ اس کی مملوک شیئ سے منتفع ہونے پر نہیں دی گئی، بلکہ تبرعِ ابتدائی ہے، گو گورنمنٹ اس کو اپنی اصطلاح میں ’’سود‘‘ ہی کہے۔‘‘
(كتاب الربوا، ۵۹۷/۶، بعنوان: ’’محکمہ ریل میں ملازمین کی تنخواہ کا کوئی جزو جو کٹ جاتا ہے، اور وہ مع سود ملتا ہے، اس سود کا حکم‘‘، ط: مکتبہ نعمانیہ)
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
فتوی نمبر : 144602101490
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن