بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گھریلو ناچاقی اور اس کا تصفیہ


سوال

میں اپنے گھر میں اپنے ماں باپ بیوی بچوں بھائی اور بھابھیوں کے ساتھ رہتا ہوں میری والدہ اپنے دو بیٹوں کے ساتھ اوپر والے پورشن میں رہتی ہیں اور میں نیچے اپنے بھائی کی فیملی کے ساتھ،میری بیوی اور میری بھابھی کی آپس میں نہیں بنتی جس کی وجہ سے گھر میں جھگڑا رہتا ہے ،میری والدہ مجھ سے سخت ناراض رہتی ہیں ،گھر میرا اپنا ذاتی ہے ،جس میں میرے ساتھ میرے والدین اور سب بھائی اور ان کی فیملی رہتی ہے،جھگڑا ہمیشہ میری بیوی سے میری غیر موجودگی میں میری والدہ کرتی ہیں ،اپنی دوسری بہو کے کہنے پہ جو نیچے ہمارے ساتھ ایک روم میں رہتی ہیں اس دفعہ تو بھائی نے بھی میری غیر موجودگی میں کہا میری بیوی کو کہ میں تیرے ہاتھ توڑ دوں گا ،مجھے جب پتہ چلا تو میں نے خاموشی اختیار کی اور بات کو ختم کیا لیکن گھر کے بڑے پھرخیال نہیں کرتے کہ میں درگزر کرتا ہوں تو وہ مسئلے کو حل کریں،میں کہتا ہوں والدہ سے کہ اوپر سے ایک بھائی کی فیملی کو نیچے بھیج دیں، اور اس بھائی کو اوپر یا میں اوپر چلا جاتا ہوں تب بھی کوئی نہیں مانتا، لہذا میری بیوی اب چھت پر گرمی میں کھانا پکاتی ہے تاکہ کسی سے جھگڑا نہ ہو ،لیکن میری والدہ پھر بھی میری بیوی سے کبھی کبھی نیچے آکے لڑ کے چلی جاتی ہیں، اللّہ تعالیٰ کے فضل سے میں گھر کا مالک ہوں پھر بھی جھگڑے کو ختم کرنے کے لیے ہم نے گرمی میں تکالیف میں خود کو ڈالا ہوا ہے، تو کیا میری والدہ اور بھائیوں کی طرف سے یہ ہمارے ساتھ ناانصافی نہیں ہے؟

میرے مسئلے کا حل بتائیں کہ اوپر نیچے کمرے بدل لیے جائیں اور سب کا نا ماننا کیا ہم پھر بھی قصور وار ہیں؟

میری والدہ کہتی ہیں تیری وجہ سے میرا دل چھلنی ہے میں کہتا ہوں بتائیں ،کس بات پہ تو کچھ نہیں بتاتیں، بس مقصد یہ ہے کہ میں تیری بیوی کو جو مرضی برا بھلا بولوں تو مجھ سے پوچھ نہیں اور میرا پوچھنا دس باتوں کے بعد صرف یہ ہوتا ہے کہ میری بیوی نے جو غلطی کی مجھے بتا دو دوبارہ نہیں کرے گی تو اس پہ میری ماں مجھ سے لڑنا شروع کر دیتی ہے، کیا میرا یہ عمل نافرمانی میں شمار ہوگا ، جب کہ والدین کو زندگی گزارنے کے لے ضروریاتِ کی کمی نہیں ، جب کہ میں گھر کے مالک کی حیثیت سے کوئی بھی فیصلہ لے کے خود کو اور اپنی بیوی بچی کو سکون میں الحمدللہ لا سکتا ہوں صرف اللہ تعالیٰ سے ثواب کی نیت سے سب کو ایک ساتھ رکھا ہے کہ سب مل کے رہے لیکن گھر میں صرف میری فیملی اذیت میں ہے۔

 اس تمام صورتِ حال میں مجھ پر کیا زمہ داری عائد ہوتی ہے والدین اور بیوی کے اعتبار سے اور اگر والدہ خود سے میری بیوی سے تعلق توڑیں، اور مجھے بیوی کی نفرت میں برا بھلا بولے تو کیا مجھ پہ کوئی گناہ ہے۔ براہ کرم قرآن و حدیث سے رہنمائی فرمائیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل  اپنے گھر میں رہائش یا اس سے متعلق جو بھی فیصلہ کرتا ہےتو وہ اس میں آزاد ہے،اس لئے کہ گھر اس کی ملکیت ہے،اگر اپنے بیوی بچے الگ ایک منزل میں رکھنا چاہتاہے،تو  شرعاً یہ بھی  جائز ہے ،اس پر سائل نہ والدہ کا نافرمان شمار ہوگا،اور نہ گناہ گار ہوگا، سائل کی والدہ اگر زیادتی کرتی ہیں،تو اس کا وبال انہیں پر ہوگا،سائل انہیں جواب نہ دے ،بلکہ حکمت سے سمجھاتا رہے،اگر پھر بھی معاملات نہ سنبھل سکیں، تو سائل رہائش علیحدہ کرنے کا یا بھائی کو الگ کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔

حدیث شریف میں ہے :

"عن ابن عباس قال: قال رسول الله ﷺ: من أصبح مطیعاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من الجنة وإن کان واحداً فواحداً، ومن أصبح عاصیاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من النار، إن کان واحداً فواحداً، قال رجل: وإن ظلماه؟ قال: وإن ظلماه وإن ظلماه وإن ظلماه. رواه البیهقي في شعب الإیمان".

(مشکاة المصابیح، کتاب الآداب، باب البر والصلة، الفصل الثالث: ج:3 ، ص: 1382، ط: المکتب الاسلامی)

ترجمہ:" حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا مطیع و فرماں بردار ہو تو اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کوئی ایک (حیات) ہو (اور وہ اس کا مطیع ہو) تو ایک دروازہ کھول دیا جاتاہے۔ اور جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا نافرمان ہو تو اس کے لیے صبح کے وقت جہنم کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کسی ایک کا نافرمان ہو تو ایک دروازہ جہنم کا کھول دیا جاتاہے۔ ایک شخص نے سوال کیا: اگرچہ والدین ظلم کریں؟ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگرچہ وہ دونوں اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں"۔ 

’’بدائع الصنائع‘‘ میں ہے:

"للمالک أن یتصرف في ملکه أي تصرف شاء."

(کتاب الدعویٰ، ج:4، ص:264، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503103015

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں