بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تنخواہ میں سے کٹنے والی رقم کا حکم


سوال

ایک صاحب کا انتقال ہو چکا ہے، پہلی بیوی سے 28 سال پہلے طلاق کے ذریعے علیحدگی ہوئی، دوسری شادی کرلی،  پہلی بیوی سے 2 لڑکے اور ایک لڑکی ہے،طلاق کے بعد بچوں سے رابطہ ختم ہو گیا تھا، تقریباً 10 سے 12 سال پہلے دوبارہ ملنا جلنا شروع ہو گئے تھے، بچے ساتھ نہیں رہتے تھے،  اپنی والدہ اور سوتیلے والد کے ساتھ رہتے تھے ۔ یہ صاحب تقریباً 1998ء سے کسی کمپنی میں کام کرتے تھے، جس کمپنی میں کام کرتے تھے وہاں تنخواہ ملتی تھی اور گریجویٹی جمع ہوجاتی تھی،  جس میں  وارث کا نام نہیں پوچھتے تھے، 3 سال  پہلے کمپنی کے اصول تبدیل ہوئے، اب تنخواہ میں سے کچھ رقم کٹتی تھی اور جمع ہو جاتی تھی، اور کمپنی نے متعین وارث کا نام بھی طلب کیا تھا،ان صاحب نے اپنی دوسری بیوی کا نام لکھوایا کہ میرے انتقال کے بعد تن خواہ سے کاٹی گئی یہ  رقم وہ کمپنی سے نکال سکیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا یہ رقم ان کی دوسری بیوی کی ملکیت میں جائے گی یا اس رقم کو سب وارثوں میں شریعت کے مطابق تقسیم کیا جائےگا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں 1998ء سے لے کر گزشتہ تین سال قبل کمپنی کے اصول تبدیل ہونے تک کمپنی والے تنخواہ بھی دیتے تھے اور تنخواہ میں سے کٹوتی کیے بغیر گریجویٹی بھی جمع کر لیتے تھے، گریجویٹی کی یہ رقم کمپنی والوں کی طرف سے آپ کے والد مرحوم کے لیے عطیہ تھی ، مرحوم کی وفات کے بعد کمپنی یہ رقم مرحوم کے ورثاء میں سے جس کے بھی حوالے کرے گی، وہی اس کا مالک ہوگا، یہ رقم ترکہ میں شامل کر کے تقسیم نہیں کی جائے گی۔

اسی طرح تین سال قبل کمپنی کے اصول تبدیل ہوئے، اس کے مطابق تنخواہ میں سے رقم کٹ کر جمع ہوتی تھی، یہ رقم  آپ کے والد ہی کی ملکیت تھی، جو ترکہ شمار ہوگی، لہٰذا ان کی وفات کے بعد کمپنی والے اگر یہ رقم مرحوم کی دوسری بیوی کے حوالہ کرتے ہیں، تو ایسا کرنے سے یہ رقم ان کی ملکیت میں نہیں جائے گی، بلکہ یہ صرف کمپنی سے  مذکورہ رقم وصول کرے گی، وصول کرنے کے بعد تین سال کی یہ مذکورہ  رقم  آپ کے مرحوم والد کا ترکہ شمار ہو کر ان کے تمام ورثاء کے درمیان شرعی حصص کے مطابق تقسیم ہوگی۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"اعلم أن أسباب الملك ثلاثة: ناقل كبيع وهبة وخلافة كإرث وأصالة، وهو الاستيلاء حقيقة بوضع اليد أو حكما بالتهيئة كنصب الصيد."

(كتاب الصيد، ج:6، ص:463، ط:سعيد)

تکملۃ ردالمحتار میں ہے:

"قوله: (الخالية إلخ) صفة كاشفة، لان التركة في الاصطلاح ما تركه الميت من الأموال صافيا عن تعلق حق الغير بعين من الأموال كما في شروح السراجية."

(كتاب الفرائض، ج:7، ص:350، ط:سعيد)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية."

(كتاب الهبة، ج:4، ص:378، ط:رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144412100221

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں