میں فوج میں ملازم ہوں ، اپنی تنخواہ سے ہر مہینے دو سو روپے کاٹے جاتے ہیں، جب ریٹائر ہوتے ہیں تو ساری رقم اور کچھ منافع بھی دیتے ہیں ، جب ایک سال ہو جاتا ہے کبھی 10 کبھی نو کبھی گیارہ فیصد منافع لگتا ہے ، ہمارے افسر جوان نے کسی نے دو ہزار کوئی پانچ ہزار کوئی دس ہزار کٹواتے ہیں، کیا یہ منافع لینا جائز ہے؟ کیوں کہ فتاوی رضویہ میں ہے کہ سود کی نیت نہ ہو تو لینا جائز ہے ۔ یہ ٹھیک ہے، آپ کیا کہتے ہیں؟
بصورتِ مسئولہ اگر جی پی فنڈ کی کٹوتی غیر اختیاری ہے اگر چہ رقم کی تعیین میں اختیار ہو تو بھی مذکورہ پیسے وصول کرنا جائز ہے، سود نہیں ہے۔ لیکن اگر اختیاری کٹوتی ہو تو اس کا حکم یہ ہے کہ ملازمین نے اپنی تنخواہوں سے جتنی کٹوتی کرائی ہے اتنی ہی جمع شدہ رقم وہ لے سکتے ہیں، زائد رقم لینا شرعاً جائز نہیں ہوتا ؛ کیوں کہ اس صورت میں ملازم اپنے اختیار سے کٹوتی کرواتاہے، گویا وہ اپنی جمع شدہ رقم کو سودی انویسٹمنٹ میں صرف کرنے پر راضی ہوتاہے، لہٰذا یہ اضافہ لینا جائز نہیں ہوگا؛ کیوں کہ سودی معاملے پر رضامندی بھی ناجائز ہے۔ اور اگر کچھ کٹوتی جبری ہو، اور باقی جتنا چاہیں اختیار سے کٹوالیں تو جتنی کٹوتی غیر اختیاری ہے وہ اور اس پر ملنے والا اضافہ لینا جائز ہوگا، اور جو کٹوتی اختیاری ہے اس پر ملنے والا اضافہ لینا جائز نہیں ہوگا، البتہ جتنی رقم اختیار سے کٹوائی اور جتنی رقم اس میں ادارے نے ملائی صرف وہ لینے کی اجازت ہوگی۔ فقط واللہ اعلم
تفصیل کے لیے جامعہ کا درج ذیل فتوی ملاحظہ کریں :
جی پی فنڈ (GP Fund) کی مد میں ملنے والی اضافی رقم کا حکم
فتوی نمبر : 144209200437
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن