بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شعبان 1446ھ 06 فروری 2025 ء

دارالافتاء

 

جی پی فنڈ میں ملنے والی اضافی رقم لینا جائز ہے؟


سوال

جی پی فنڈ  میں  ملازم کی تنخواہ سےکٹوتی جبری ہوتی ہے یا اختیاری؟کیا کٹوتی شدہ رقم منافع کے ساتھ لینا جائز ہے؟اگر لینا جائز  نہیں ہے تو کسی نے لا علمی میں منافع وصول کرلیے تو اب کیا حکم ہے؟ان منافع کو صدقہ کرسکتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ مختلف  کمپنیوں کی طرف سے ملازم کوجی پی فنڈ کی سہولت فراہم کی جاتی ہے اور اس فنڈ میں شمولیت کے لیے  ملازم کی تنخواہ  سے کچھ کٹوتی (جبری  یا اختیاری)ہوتی ہے،  جو ہر ماہ اس فنڈ میں جمع کرلی جاتی ہے اور ریٹائرمنٹ کے وقت کمپنی جمع شدہ رقم اضافہ کے ساتھ ملازم کو دے دیتی ہے۔

 بعض کمپنیاں اپنے ہر ملازم کو جبری طور پراس فنڈ کا حصہ بناتی ہیں،  اس میں ملازم کا کچھ اختیار نہیں ہوتا، نہ وہ اس کٹوتی کو بند کرسکتا ہے اور نہ ہی اس میں کوئی تبدیلی  کرسکتا ہے، جس کی وجہ سے ہر ماہ اسے تنخواہ  ملنے سے پہلے ہی طے شدہ شرح کے مطابق جبری کٹوتی کرلی جاتی ہے اور بقیہ تنخواہ ملازم کو ملتی ہے۔

اس  کا حکم یہ ہے کہ جبری فنڈ پرسالانہ جو اضافے کیے جاتے ہیں، وہ شرعاً جائز ہیں،  سود میں داخل نہیں ہیں، اس لیے کہ  کٹوتی شدہ رقم قبضہ سے پہلے ملازم کی ملک ہی نہیں ہوتی،  کیوں کہ  تنخواہ کا جو  حصہ ملازم نے وصول نہیں کیا وہ  اس کی ملک میں داخل نہیں ہوا، لہٰذا یہ اضافے کمپنی کی طرف سے ملازم کے لیے تبرع و انعام ہے اور ملازم کے لیے ان کو وصول کرناشرعاً جائز ہے۔

 بعض کمپنیوں  کی طرف سے ہر ملازم کے لیے اس فنڈ کا حصہ بننا لازمی نہیں ہوتا ، بل کہ کمپنی اپنے ملازمین کو اختیار دیتی ہے کہ اپنی رضامندی سے جو ملازم اس فنڈ سے فائدہ اٹھانا چاہے وہ اس فنڈ کا حصہ بن سکتا ہے، پھر کوئی سرکاری ملازم بلا جبرو اکراہ اپنی مرضی سے  درخواست دے کر  کچھ رقم جی پی فنڈ میں کٹوانا چاہے تو  کمپنی ہر ماہ طے شدہ شرح کے مطابق ملازم کی تنخواہ سے کٹوتی کرکے مذکورہ فنڈ میں جمع کرتی رہتی ہے۔

اس کا حکم یہ ہے کہ  ملازم   کے لیےاپنی تنخواہ سے جتنی کٹوتی ہوئی  ہے  وہ اصل رقم  اورادارے یا کمپنی یا حکومت کی طرف سے ملائی گئی  رقم  حلال ہے اور اس کو لینے کی اجازت ہے،لیکن ان پر  ملنے والےمنافع شرعاًسودہیں، جس کا لینا ملازم کے لیے قطعاً حرام ہے، تاہم کسی ملازم نے اضافی سودی رقم وصول کرلی تو اب اس کے ذمہ لازم ہے کہ  کسی فقیر کو بغیر ثواب کی نیت کے وہ اضافی رقم صدقہ کردے۔

العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیۃ میں ہے:

"المتبرع ‌لا ‌يرجع بما تبرع به على غيره."

(كتاب المداينات، ج:2، ص:226، ط: دار المعرفة)

فتاوی شامی میں ہے:

"والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه، وإن كان مالا مختلطا مجتمعا من الحرام ولا يعلم أربابه ولا شيئا منه بعينه حل له حكما، ‌والأحسن ‌ديانة التنزه عنه."

(كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، مطلب رد المشترى فاسدا إلى بائعه فلم يقبله، ج:5، ص:99، ط: سعيد)

وفیہ أیضاً:

"تصدقوا بها لأن ‌سبيل الكسب ‌الخبيث ‌التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه ".

(كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع، ج:6، ص:385، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144603102487

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں