کیا فر ماتے ہیں مفتیان کرام میں ایک سرکاری ادارے میں نوکری کر رہا ہوں، ہر ماہ میری تنخواہ سے جی پی فنڈ کی کٹوتی ہوتی ہے اور اس پر سالانہ منافع لگتا ہے،کیا یہ منافع سود کے زمرے میں آتا ہے کہ نہیں؟ اور کیا اس کو لینا جائز ہے کہ نہیں؟ اور اگر میں جی پی فنڈ سے کچھ رقم نکلوالیتا ہوں اور جب واپس اس رقم کو جمع کرواؤں گا تب اس پر جو منافع لگے گا کیا وہ سود کے زمرے میں آۓ گا کہ نہیں؟ اور اگر یہ سود کے زمرے میں آتا ہے تو کیا یہ صرف اس رقم پر جو میں نے نکلوا کر جمع کروائی اس پر جو منافع لگا وہ سود کے زمرے میں آۓ گا یا آگے جتنی بھی میری تنخواہ سے جی پی فنڈ کی کٹوتی ہو گی وہ سب سود کے زمرے میں آۓ گی؟
واضح رہے کہ سرکاری اور نجی اداروں کی طرف سے ملازمین کے لیے پراویڈنٹ فنڈ کی سہولت فراہم کی جاتی ہے، اور اس فنڈ میں شمولیت کے لیے ملازمین کی تنخواہ میں سے کچھ فیصد کٹوتی کرکے ہر ماہ اس فنڈ میں جمع کرلی جاتی ہے اور ریٹائرمنٹ کے وقت کمپنی جمع شدہ رقم اضافہ کے ساتھ ملازم کو دے دیتی ہے، اس کی چند صورتیں ہیں:
پراویڈنٹ فنڈ کی رائج صورتیں:
1۔ بعض ادارے اپنے ہر ملازم کو جبراً اس فنڈ کا حصہ بناتے ہیں اور ملازم کو عدمِ شمولیت کا اختیار نہیں دیتے، ہر ماہ تنخواہ دینے سے پہلے ہی طے شدہ شرح کے مطابق جبری کٹوتی کرلی جاتی ہے اور بقیہ تنخواہ ملازم کو دے دی جاتی ہے،اس قسم کی کٹوتی کو جبری کٹوتی کہا جاتا ہے ۔
2۔ بعض اداروں کی طرف سے ہر ملازم کے لیے اس فنڈ کا حصہ بننا لازمی نہیں ہوتا ، بلکہ ملازمین کو اختیار ہوتاہے کہ اپنی مرضی سے جو ملازم اس فنڈ سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے وہ اس فنڈ کا حصہ بن سکتا ہے اور ملازمین کی اجازت سے ہر ماہ طے شدہ شرح کے مطابق ان کی تنخواہوں سے کٹوتی کرکے مذکورہ فنڈ میں جمع کی جاتی رہتی ہے،اس قسم کی کٹوتی کواختیاری کٹوتی کہا جاتا ہے ۔
3۔ بعض ادارے ہر ملازم کو جبراً اس فنڈ کا حصہ بنانے کے ساتھ ساتھ ملازمین کو اختیار دیتے ہیں کہ اگر کوئی ملازم اس فنڈ میں مقررہ شرح سے زیادہ رقم جمع کرانا چاہے تو کرا سکتا ہے ، اس قسم کی کٹوتی کو جبری و اختیاری کٹوتی کہا جاتا ہے ۔
مذکورہ صورتوں میں ملنے والے اضافے کا حکم:
1۔ پہلی صورت( جبری کٹوتی) کا حکم یہ ہے کہ یہ فنڈ کمپنی کی طرف سے ملازمین کے لیے تبرع و انعام ہوتا ہے اور ملازمین کے لیے یہ لینا شرعاً جائز ہوتا ہے ۔ اس لیے ملازم نے اپنی رضامندی سے رقم جمع نہیں کروائی، ادارہ اس سے جس طرح بھی نفع کمائے ملازم اس کا ذمہ دار نہیں ہوتا، اور قانوناً وشرعاً ابھی تک مذکورہ رقم اس کی ملکیت میں بھی نہیں ہوتی ؛ لہٰذا اس کے لیے اضافی رقم لینا جائز ہوگا۔ البتہ اگر کوئی احتیاطاً یہ رقم استعمال نہ کرے تو یہ تقوی کی بات ہے۔
2۔ دوسری قسم (اختیاری کٹوتی) کا حکم یہ ہے کہ ملازمین نے اپنی تنخواہوں سے جتنی کٹوتی کرائی ہے وہ اوراس پرمحکمہ والوں نےاپنےجانب سےجو اضافہ کیاہےان دونوں قسموں کی رقم کالینا توجائزہے،البتہ اس پرمزید بينك وغيره کی طرف سےجوسود لگتاہے،اس رقم كالیناجائزنہیں ہے۔
3۔ تیسری صورت( جبری واختیاری کٹوتی) کا حکم یہ ہے کہ جتنی کٹوتی جبراً ہوئی ہے اس پر ملنے والی زائد رقم ملازم کے لیے لینا شرعاً جائز ہوتا ہے اور جتنی رقم ملازم نے اپنے اختیار سے کٹوائی ہے،اوراس پرمحکمہ والےنےاپنےجانب سےجو اضافہ کیاہےان دونوں قسموں کی رقم کاوصول کرناتوجائزہے،البتہ اس پربينك وغيره سےجواضافہ ملتاہے،وه چونکہ سودہے،اس ليےاس كا ليناجائزنہیں ہے
لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کی تنخواہ سے جو ہر ماہ کٹوتی ہوتی ہے اگر وہ کٹوتی جبری ہے توسائل کے لیے منافع کی رقم استعمال کرنا جائز ہے لیکن اگر وہ کٹوتی اختیاری ہے تو سائل کی جتنی رقم کی کٹوتی ہوئی ہے وہ رقم اور اس پر جو محکمہ اضافہ کرے اس کا لینا جائز ہے البتہ اس پر جو مزید بینک وغیرہ کی طرف سے جو سود لگتا ہے اس رقم کا لینا جائز نہیں ہے۔
البحرا لرائق میں ہے:
"(قوله بل بالتعجيل أو بشرطه أو بالاستيفاء أو بالتمكن) يعني لا يملك الأجرة إلا بواحد من هذه الأربعة والمراد أنه لا يستحقها المؤجر إلا بذلك كما أشار إليه القدوري في مختصره لأنها لو كانت دينا لا يقال أنه ملكه المؤجر قبل قبضه وإذا استحقها المؤجر قبل قبضها فله المطالبة بها وحبس المستأجر عليها وحبس العين عنه وله حق الفسخ إن لم يعجل له المستأجر كذا في المحيط لكن ليس له بيعها قبل قبضها."
(کتاب الاجارۃ جلد 7 ص: 300 ط: دارالکتاب الاسلامي)
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر."
(کتاب البیوع , فصل فی القرض جلد 5 ص: 166 ط: دارالفکر)
جواہر الفقہ میں ہے:
"جبری پراویڈنٹ فنڈ پر جو سود کے نام پر رقم ملتی ہے ، وہ شرعا سود نہیں بلکہ اجرت(تنخواہ)ہی کا ایک حصہ ہے اس کا لینا اور اپنے استعمال میں لاناجائز ہے البتہ پراویڈنٹ فنڈ میں رقم اپنے اختیار سے کٹوائی جائے تو اس میں تشبہ بالربوا بھی ہے اور ذریعہ سود بنالینے کا خطرہ بھی ، اس لیے اس سے اجتناب کیا جائے۔"
(پراویڈنٹ فنڈ پر زکوۃ اور سود کا مسئلہ جلد ۳ ص:۲۵۸ ط:مکتبہ دارالعلوم کراچی)
فقط و اللہ اعلم
فتوی نمبر : 144410101509
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن