بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پراویڈنٹ فنڈ کی رقم کو انویسٹ کرکے منافع کمانا


سوال

میں ایک کمپنی میں جاب کرتا ہوں۔ ہماری کمپنی میں پراویڈنٹ فنڈ ہے جس میں ملازمین شرکت کرتے ہیں اور ہر ماہ تنخواہ کا کچھ حصہ کٹ جاتا ہے۔ جتنا حصہ ملازم کی تنخواہ سے کٹتا ہے  اتنا ہی حصہ مالک بھی ڈالتا ہے اور پھر یہ پیسہ کسی جگہ انوسٹ کر دیا جاتا ہے۔ اور ہر سال اس پر منافع ملتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پراویڈنٹ فنڈ پر منافع لینا حلال ہے؟

جواب

سرکاری و نجی اداروں کی طرف سے ملازمین کے لیے پراویڈنٹ فنڈ کی جو  سہولت فراہم کی جاتی ہے اور اس فنڈ میں شمولیت کے لیے  ملازمین اپنی تنخواہ میں سے کچھ فیصد کٹوتی کرواتے ہیں  اور کچھ رقم ادارہ اپنی طرف سے ملاتا ہے، پھر یہ رقم کسی جگہ انویسٹ کردی جاتی  ہے، اور  ریٹائرمنٹ کے وقت کمپنی جمع شدہ رقم اضافہ کے ساتھ ملازم کو دے دیتی ہے، اس کی چند صورتیں ہیں، ذیل میں وہ صورتیں، ان میں ملنے والے اضافے کا حکم بیان کیا جاتاہے:

پراویڈنٹ فنڈ کی رائج صورتیں:

1۔ بعض کمپنیز اپنے ہر ملازم کو جبراً اس فنڈ کا حصہ بناتی ہیں اور ملازم کو عدمِ شمولیت کا اختیار نہیں دیتیں، جس کی وجہ سے ہر ماہ تنخواہ دینے سے پہلے ہی طے شدہ شرح کے مطابق جبری کٹوتی کرلی جاتی ہے اور بقیہ تنخواہ ملازم کو دے دی جاتی ہے۔

2۔ بعض کمپنیز کی طرف سے ہر ملازم کے لیے اس فنڈ کا حصہ بننا لازمی نہیں ہوتا ، بلکہ کمپنی اپنے ملازمین کو اختیار دیتی ہے کہ اپنی مرضی سے جو ملازم اس فنڈ سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے وہ اس فنڈ کا حصہ بن سکتا ہے اور کمپنی ملازمین کی اجازت سے ہر ماہ طے شدہ شرح کے مطابق ان کی تنخواہوں سے کٹوتی کرکے مذکورہ فنڈ میں جمع کرتی رہتی ہے۔

3۔ بعض کمپنیز ہر ملازم کو جبراً اس فنڈ کا حصہ بنانے کے ساتھ ساتھ ملازمین کو اختیار دیتی ہیں کہ اگر کوئی ملازم اس فنڈ میں مقررہ شرح سے زیادہ رقم جمع کرانا چاہے تو کرا سکتا ہے؛ اس قسم کی کٹوتی کو جبری و اختیاری کٹوتی کہا جاتا ہے ۔

مذکورہ صورتوں میں ملنے والے اضافے کا حکم:

1۔ پہلی صورت ( جبری کٹوتی) کا حکم یہ ہے کہ یہ فنڈ  (مع اضافی رقم) کمپنی کی طرف سے ملازمین کے لیے تبرع و انعام ہوتا ہے اور ملازمین کے لیے یہ لینا شرعًا جائز ہوتا ہے ۔ احتیاطًا یہ اضافہ نہ لیا جائے تو بہترہے۔

2۔ دوسری  قسم (اختیاری کٹوتی)  کا حکم یہ ہے کہ ملازمین نے اپنی تنخواہوں سے جتنی کٹوتی کرائی ہے اور جتنی رقم کمپنی نے اپنی طرف سے ملائی ہے، اتنی جمع شدہ رقم وہ لے سکتے ہیں، ان دونوں رقموں سے زائد رقم لینا شرعًا جائز نہیں ہوتا ۔

3۔ تیسری صورت( جبری واختیاری کٹوتی) کا حکم یہ ہے کہ جتنی کٹوتی جبراً ہوئی ہے اور اس کے ساتھ جتنی رقم کمپنی نے  ملائی ہے، اور ان دونوں رقموں پر جو رقم اضافی مل رہی ہے، وہ ملازم کے لیے لینا شرعاً جائز ہوتا ہے۔   اور جتنی رقم ملازم نے اپنے اختیار سے کٹوائی ہے،  اور کمپنی نے اپنی طرف سے رقم شامل کی ہے، اتنی رقم لینا تو جائز  ہوتا ہے، لیکن ان دونوں رقموں پر  ملنے والی زائد رقم لینا جائز نہیں  ہوتا۔

اگر اس تفصیل میں سے کوئی بات سمجھ نہ آئی ہو تو اس کی نشان دہی کر کے دوبارہ پوچھ لیں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110201078

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں