جی پی فنڈ کا منافع لینا جائز ہے؟
جی پی ’’فنڈ‘‘ سے مراد وہ رقم ہے جو ہر ماہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے حکومت کاٹتی ہے اور پھر ان کی ریٹائرمنٹ پر کاٹی ہوئی رقم اضافی رقم کےساتھ انہیں دیتی ہے۔
اگر یہ حکومت کی جانب سے جبری طور پر کٹوتی کی جاتی ہے تو ملازمین کے لیے اصل اور اضافی رقم بھی لینا اور اپنے استعمال میں لانا اور اس سے سامان وغیرہ خریدنا جائز ہوگا۔
اور اگر یہ کٹوتی جبری اور لازمی نہیں ہے، بلکہ اختیاری ہے تو اس صورت میں تنخواہ سے کٹی ہوئی رقم اور کمپنی نے جو اس میں اپنی طرف سے ملائی ہے ان دونوں کے مجموعی رقم کو لینا جائز ہوگا اور اس پر انشورنس کمپنی وغیرہ جو زائد رقم دیتی ہے وہ سود ہونے کی وجہ سے لینا اور استعمال کرنا اور اس سے کوئی چیز خریدنا جائز نہیں ہوگا۔
(ماخوذ از تجارت کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا: 3/ 152، 153، ط: بیت العمار)
جواہر الفقہ میں ہے:
محکمہ پراویڈنٹ فنڈ کی رقم پر جو زیادتی اپنی طرف سے دے رہا ہے اس پر شرعی اعتبار سے ربا کی تعریف صادق نہیں آتی خواہ محکمہ نے اس کو سود کا نام لے کردیا ہو۔ اختیاری صورت میں تشبہ بالربوٰ بھی ہے اور یہ خطرہ بھی کہ لوگ اس کو سود خوری کا ذریعہ بنالیں اس لیے اختیاری صورت میں اس پر جو رقم بنام سود دی جاتی ہے اس سے اجتناب کیا جائے۔
(رسالہ: پراويڈنٹ فنڈ پر سود كا مسئلہ، 3/ 277، ط: دار العلوم کراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144508101261
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن