میں ایک سرکاری ملازم ہوں ،جی پی فنڈ کے بارے میں پوچھنا ہے کیا یہ سود ہے یا حلال ہے ؟
صورت مسؤلہ میں سرکاری ملازم کی تنخواہ میں سے ہر ماہ جبری طور پر جو ایک مخصوص رقم کاٹی جاتی ہے اور بعد میں اضافہ کے ساتھ ریٹائر منٹ پر دی جاتی ہے تو ایسی صورت میں حکم یہ ہے کہ کٹوتی شدہ رقم اور اس کے بقدر ادارہ اپنی طرف سے جتنی رقم ملاتا ہے اور ان دونوں قسم کی رقوم پر جو اضافہ دیا جاتا ہے تو شرعا یہ وصول کرناجائز ہے اور یہ تمام رقوم ملازم کی تنخواہ کا حصہ ہیں، اور یہ ملازم کے لیے سود کے حکم میں نہیں ہے۔
البحر الرائق میں ہے:
"(قوله: بل بالتعجيل أو بشرطه أو بالاستيفاء أو بالتمكن) يعني لايملك الأجرة إلا بواحد من هذه الأربعة، والمراد أنه لايستحقها المؤجر إلا بذلك، كما أشار إليه القدوري في مختصره، لأنها لو كانت دينًا لايقال: إنه ملكه المؤجر قبل قبضه، وإذا استحقها المؤجر قبل قبضها، فله المطالبة بها وحبس المستأجر عليها وحبس العين عنه، وله حق الفسخ إن لم يعجل له المستأجر، كذا في المحيط. لكن ليس له بيعها قبل قبضها".
(البحر الرائق ج: 7، ص: 300، ط: دارالكتاب الإسلامي)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"فضل خال عن عوض بمعيار شرعي وهو الكيل والوزن فليس الذرع والعد بربًا مشروط ذلك الفضل لأحد المتعاقدين في المعاوضة".
(الدر المختار ج:5، ص: 128/ 129، ط: سعيد)
جواہر الفقہ میں ہے:
’’جبری پراویڈنٹ فنڈ پر جو سود کے نام پر رقم ملتی ہے ،وہ شرعا سود نہیں بلکہ اجرت (تنخواہ ) ہی کا ایک حصہ ہے اس کا لینا اور اپنے استعمال میں لانا جائز ہے ،البتہ پراویڈنٹ فنڈ میں رقم اپنے اختیار سے کٹوائی جائے تو اس میں تشبہ بالربوا بھی ہے اور ذریعہ سود بنالینے کا خطرہ بھی، اس لیے اس سے اجتناب کیا جائے‘‘۔
(پراویڈنٹ فنڈ پر زکوٰۃ اور سود کا مسئلہ: 3/258، ط: دارالعلوم کراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144407100759
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن