میں ایک سرکاری ملازم ہوں۔ ہماری تنخواہ سے ہر ماہ مخصوص رقم GP FUND کے نام سے کٹوتی ہوتی ہے۔اور اتنی ہی رقم ادارہ بھی ملاتا ہے،جس پر ہر سال intrest لگتا ہے۔جو کہ ملازمت پوری ہونے پر ریٹائرمنٹ پر intrest کے ساتھ ملتا ہے۔ سوال میرا یہ ہے کہ ریٹائرمنٹ پر ملنے والی یہ رقم سود شمار ہوگی یا نہیں ؟ اکثر اس بارے میں یہ رائے عام ہے کہ یہ رقم سود میں شمار نہیں ہوتی۔کیوں کہ سرکار آپ کی یہ رقم آپ کی مرضی کے بغیر کٹوتی کررہی ہے تو جو رقم موجودہ وقت میں Value رکھتی ہے وہ جب آپ کو ریٹائرمنٹ پر ملتی ہے اس کی وہ Value نہیں رہتی اس لیے وہ تمام پیسہ سرکار کی طرف سے آپ کو احسان کی مدمیں ملتا ہے نہ کہ وہ سود شمار ہوگا۔میں ذاتی طور پر اس سے ملنے والی اضافی رقم کو نہیں وصول کرنا چاہتا ہوں۔ مگر ادارہ intrest میں دلچسپی نہ رکھنے کے باوجود لا محالہ intrest لگاتا ہے۔ایسی صورت میں کیا کرنا بہتر ہے؟یہ سود میں شمار ہوگا ؟ اصلاح فرمائیے۔
صور تِ مسئولہ میں اگرسرکاری ادارے میں سائل کی ماہانہ تنخواہ سے جو رقم کاٹی جاتی ہے اس میں سائل کا اختیار نہیں ہوتا بلکہ جبری کٹوتی ہوتی ہے تو ملازمت ختم ہونے کے بعد اس فنڈ سے سائل کوجتنی بھی رقم ملے گی وہ سائل کے لیے حلال ہوگی،سود نہیں ہوگی ،اس کو لینا اور استعمال کرنا جائز ہوگا ۔
جواہر الفقہ میں ہے:
"جبری پراویڈنٹ فنڈ پر جو سود کے نام پر رقم ملتی ہے ، وہ شرعا سود نہیں بلکہ اجرت( تنخواہ) ہی کا ایک حصہ ہے اس کا لینا اوراپنے استعمال میں لانا جائز ہے، البتہ پراویڈنٹ فنڈ میں رقم اپنے اختیار سے کٹوائی جائے تو اس میں تشبہ بالربوا ہے اور ذریعہ سود بنا لینے کا خطرہ بھی ، اس لیے اس سے اجتناب کیاجائے۔"
(پراویڈنٹ فنڈ پر زکوۃ اور سود کا مسئلہ جلد ۳ ص:۲۵۸ ط:مکتبہ دارالعلوم کراچی)
البحرا لرائق میں ہے:
"(قوله بل بالتعجيل أو بشرطه أو بالاستيفاء أو بالتمكن) يعني لا يملك الأجرة إلا بواحد من هذه الأربعة والمراد أنه لا يستحقها المؤجر إلا بذلك كما أشار إليه القدوري في مختصره لأنها لو كانت دينا لا يقال أنه ملكه المؤجر قبل قبضه وإذا استحقها المؤجر قبل قبضها فله المطالبة بها وحبس المستأجر عليها وحبس العين عنه وله حق الفسخ إن لم يعجل له المستأجر كذا في المحيط لكن ليس له بيعها قبل قبضها."
(کتاب الاجارۃ جلد 7 ص: 300 ط: دارالکتاب الإسلامي)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144502102352
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن