بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جی پی فنڈ پر ملنے والی اضافی رقم کا حکم


سوال

سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں سے GP Fund کے نام سے رقم کی کٹوتی ہوتی ہے جو حکومت کے پاس جمع ہوتی رہتی ہے اور ریٹائرمنٹ پر حکومت اس جمع شدہ رقم میں کچھ اضافی رقم شامل کر کے واپس کرتی ہے، کیا اس اضافی رقم کا لینا جائز ہے؟

جواب

جی پی فنڈ کی دو صورتیں ہیں: (1) اختیاری (2) جبری۔

1- اگر جی پی فنڈ کا جمع کرنا ملازم کے اختیار میں ہو اور ملازم اپنے اختیار سے کٹوتی کروائے اور اس رقم پر اضافہ مل جائے، کمپنی یا ادارہ اس کو ڈبل کرکے واپس کرے یا چالیس فیصد زیادہ کرکے دے یا انشورنس میں ڈال کر اس پر اضافہ دے تو اس اختیاری جی پی فنڈ کا حکم یہ ہے کہ اصل رقم حلال ہے، اصل رقم کے علاوہ کمپنی  اپنی طرف سے جو رقم شامل کررہی ہے اس کا لینا بھی جائز ہے۔ لیکن اصل اور کمپنی کی طرف سے شامل کردہ رقم کو کمپنی یا ادارہ، انشورنس کمپنی یا بینک میں جمع کرے تو اس انشورنس یا سود والی اضافی رقم کا حکم یہ ہے کہ  چوں کہ یہ جی پی فنڈ اختیاری ہے، اس صورت میں کمپنی یا ادارہ ملازم کے لیے وکیل بن جائے گا،  اور وکیل کا قبضہ موکل کا قبضہ ہوتاہے، لہٰذا بیمہ کمپنی یا بینک میں رقم منتقل ہونے کے بعد ملازم اس رقم کا مالک بن جائے گا؛ لہٰذا اس اضافی رقم کا استعمال ملازم کے لیے ناجائز ہے۔

2- اگر جی پی فنڈ کا جمع کرنا آدمی کے اختیار میں نہ ہو اور کمپنی یا ادارہ جی پی فنڈ کی مد میں پیسے کاٹے اور اصل پیسے کے بجائے دوگنے پیسے دے یا اس سے زیادہ دے تو یہ اصل رقم حلال ہے اور اس پر اضافہ سود کے زمرے میں نہیں آتا، اس میں ملازم کا عمل دخل نہیں ہے اور یہ ملازم کے لیے عطیہ کی طرح ہے، اس کا لینا ملازم کے لیے جائز ہے۔

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: بل بالتعجيل أو بشرطه أو بالاستيفاء أو بالتمكن) يعني لايملك الأجرة إلا بواحد من هذه الأربعة، والمراد أنه لايستحقها المؤجر إلا بذلك، كما أشار إليه القدوري في مختصره، لأنها لو كانت دينًا لايقال: إنه ملكه المؤجر قبل قبضه، وإذا استحقها المؤجر قبل قبضها، فله المطالبة بها وحبس المستأجر عليها وحبس العين عنه، وله حق الفسخ إن لم يعجل له المستأجر، كذا في المحيط. لكن ليس له بيعها قبل قبضها".

(البحر الرائق ج: 7، ص: 300، ط: دارالكتاب الإسلامي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"مطلب: كل قرض جر نفعًا حرام

(قوله:كل قرض جر نفعًا حرام) أي إذا كان مشروطًا، كما علم مما نقله عن البحر".

 (رد المحتار ج: 5، ص: 166، ط: سعيد)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"فضل خال عن عوض بمعيار شرعي وهو الكيل والوزن فليس الذرع والعد بربًا مشروط ذلك الفضل لأحد المتعاقدين في المعاوضة".

(الدر المختار ج:5، ص: 128/ 129، ط: سعيد)

بیمہ کی شرعی حیثیت میں ہے:

’’ پنجم: مقررہ قسط والا بیمہ یعنی وہ کاروباری بیمہ جسے بیمہ کمپنیاں کرتی ہیں اس تعاون وتضاون کے مقاصد کو پورا نہیں کرتا جس سے اسلام نے جائز قرار دیا ہے، اس لیے یہ بیمہ کمپنیاں جو کاروبار کرتی ہیں، وہ مالی معاوضہ والے معاملات ہیں جن میں دھوکا جوا اور سود شامل ہوگیا ہے، اور معاوضہ والے معاملات میں جب یہ باتیں شامل ہوجائیں تو وہ معاملات باطل ہوجاتے ہیں‘‘۔

(بیمہ کی شرعی حیثیت، ص: 201، ط: ادارہ تحقیقات اسلامی)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111200049

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں