بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جی پی فنڈ (GP Fund) کا حکم


سوال

جی پی فنڈ کا شرعی حکم بتایا جائے، مزید یہ کہ جواز کی شرائط بتادی جائے۔

جواب

واضح رہے کہ جی پی فنڈ کی مد میں ملازم کی تنخواہ میں سے حکومت  لازمی طور جو رقم کاٹتی ہے،پھر اس کے ساتھ حکومت اپنی طرف سے رقم ملاتی ہے،پھر دونوں رقوم کو بینک میں رکھواکر انٹرسٹ شامل کرکے ملازم کے ریٹائر منٹ کے بعد تینوں قسم کی رقوم ملازم کو واپس ادا کی جاتی ہے ،ان کا لینا ملازم کے لیے شرعاً درست ہے،یہ اضافی رقم خواہ حکومت کی طرف سے سے ملائی ہوئی ہو  یا انٹرسٹ ہو یہ ملازم کے حق میں سود نہیں بلکہ ملازم کی تنخواہ کا حصہ ہے، اس لیے کہ اول تو  ملازم نے اس زیادتی کے ملانے کا محکمہ کو حکم نہیں دیا تھا اور اگر حکم دیا بھی ہو تو اس کا یہ حکم شرعاً معتبر نہیں اس لیے کہ یہ حکم ایک ایسے مال سے متعلق ہے جو اس کا مملوک نہیں ہے۔

البتہ جی پی فنڈ میں کٹوتی اختیاری ہو تو جتنی رقم تنخواہ سے کاٹی گئی ہے اور جو رقم ادارے کی طرف سے ملائی گئی ہے وہ لینا جائز ہوگا، ان دونوں رقموں پر جو رقم اضافی ملتی ہے وہ لینا جائز نہیں ہوگا۔

جواہر الفقہ میں ہے:

"جب یہ ثابت ہوگیا کہ پراویڈنٹ فنڈ کی رقم نہ ملازم کی مملوک ہے اور نہ فی الحال اس کے تصرفات اس میں نافذ ہیں تو محکمہ اس رقم کے ساتھ جو معاملہ بھی کررہا ہے اپنی ملک میں کررہا ہے ملازم کا اس سے کوئی تعلق نہیں اور جس طرح بتصریحِ بحر ملازم کے تصرفات بیع و شراء اس رقم میں شرعاً معتبر نہیں اسی طرح اس رقم میں ملازم کی طرف سے معاملہ ربوٰا ناممکن اور غیر معتبر ہے،اور اس رقم میں محکمہ کے جملہ معاملات کی ذمہ داری خود محکمہ پر ہی عائد ہوتی ہے ملازم پر نہیں محکمہ کے یہ تصرفات نہ ملازم کے مال مملوک میں ہیں اور نہ ان میں محکمہ ملازم کا وکیل ہے۔

لہٰذا جس وقت محکمہ اپنا یہ واجب الادا دین ملازم کو ادا کرتاہے اور اس میں کچھ رقم اپنی طرف سے مزید ملا کر دیتا ہے ( یہ مزید رقم خواہ وہ ہو جو محکمہ ماہ بماہ ملازم کے حساب میں جمع کرتا ہے اور خواہ وہ جو سالانہ سود کے نام سے اس کے حساب میں جمع کی جاتی ہے ) تو یہ بھی محکمہ کا اپنا یک طرفہ عمل ہے کیوں کہ اول تو ملازم نے اس زیادتی کے ملانے کا محکمہ کو حکم نہیں دیا تھا اور اگر  حکم دیا بھی ہو تو  اس کا یہ حکم شرعاً معتبر نہیں اس لیے کہ یہ حکم ایک ایسے مال سے متعلق ہے جو اس کا مملوک نہیں ہے۔

بنا بریں محکمہ پراویڈنٹ فنڈ کی رقم پر جو زیادتی اپنی طرف سے دے رہا ہے اس پر شرعی اعتبار سے ربا کی تعریف صادق نہیں آتی خواہ محکمہ نے اس کو سود کا نام لے کر دیا ہو۔"

(پراویڈنٹ فنڈ پر سود کا مسئلہ، ج:ـ3، ص:277، مکتبہ دارالعلوم کراچی )

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: بل بالتعجيل أو بشرطه أو بالاستيفاء أو بالتمكن) يعني لايملك الأجرة إلا بواحد من هذه الأربعة، والمراد أنه لايستحقها المؤجر إلا بذلك، كما أشار إليه القدوري في مختصره، لأنها لو كانت دينًا لايقال: إنه ملكه المؤجر قبل قبضه، وإذا استحقها المؤجر قبل قبضها، فله المطالبة بها وحبس المستأجر عليها وحبس العين عنه، وله حق الفسخ إن لم يعجل له المستأجر، كذا في المحيط. لكن ليس له بيعها قبل قبضها". 

(كتاب الإجارة،300/7، دارالكتاب الإسلامي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"مطلب: كل قرض جر نفعًا حرام....... (قوله:كل قرض جر نفعًا حرام) أي إذا كان مشروطا، كما علم مما نقله عن البحر". 

( كتاب البيوع، باب المرابحة والتولية، مطلب ‌كل ‌قرض جر نفعاحرام، ج:5، ص:166، ط:سعيد)

تنویرالابصار مع الدرالمختار میں ہے:

"(فضل)....(خال عن عوض)....(بمعيار شرعي) وهو الكيل والوزن فليس الذرع والعد بربا(مشروط) ذلك الفضل(لأحد المتعاقدين)....(في المعاوضة)".

(‌‌باب الربا،170،169،168/5،سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100157

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں