بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو القعدة 1446ھ 22 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

مرحوم کے روزے اور نماز کا فدیہ کس رقم سے اور کس کو دے سکتے ہیں؟


سوال

مرحوم کے ورثاء مرحوم کے روزوں اور نماز کا فدیہ دے سکتے ہیں  ؟ اور کن پیسوں سے دے سکتے ہیں؟اور کن کو دے سکتے ہیں؟

جواب

مرحوم اگر روزوں اور نماز کے فدیہ کی وصیت نہیں کرکے گئے تو پھر ورثاء کو اختیار ہے کہ وہ مرحوم کی طرف سے فدیہ ادا کریں یا نہ کریں، ورثاء پر لازم نہیں ہے، جو وارث چاہے وہ اپنے ذاتی مال سے یا پھر ترکہ میں سے جو اس کو حصہ  ملے گا اس میں سے اپنی صوابدید اور رضامندی سے فدیہ ادا کردے۔نیز تمام ورثاء اپنی رضامندی سے ترکہ میں سے ہی پہلے فدیہ ادا کرنا چاہتے ہیں اور پھر تقسیم کرنا چاہتے ہیں تو اس کی بھی گنجائش ہے بشرطیکہ سب وارث بالغ ہوں اور وہ اس فدیہ پر  راضی ہوں ۔

اگر مرحوم نے فدیہ ادا کرنے کی وصیت کی تھی تو پھر ترکہ کے ایک تہائی سے فدیہ ادا کرنا ورثاء پر لازم ہے اور پہلے ایک تہائی سے فدیہ ادا کیا جائے گا اس کے بعد ترکہ تقسیم کیا جائے گا، ہاں اگر فدیہ کی رقم ایک تہائی ترکہ سے زیادہ ہورہی تو جو کچھ ایک تہائی سے زائد ہوگا اس میں ورثاء کو اختیار ہوگا، چاہیں تو ادا کریں اور چاہیں تو نہ کریں یا جو وارث چاہے وہ اپنی رضامندی سے اپنے حصہ یا اپنے ذاتی مال سے ادا کردے۔

فدیہ کی رقم مستحق زکات شخص کو دی جائے یعنی وہ شخص جس کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی، یا ساڑھے سات تولہ سونایا ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر مال تجارت یا ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ضرورت سے زائد اشیاء یا ان سب کا مجموعہ یا ان میں سے بعض کا بعض کے ساتھ مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر نہ ہو۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو فات صوم رمضان بعذر المرض أو السفر واستدام المرض والسفر حتى مات لا قضاء عليه لكنه إن أوصى بأن يطعم عنه صحت وصيته، وإن لم تجب عليه ويطعم عنه من ثلث ماله فإن برئ المريض أو قدم المسافر، وأدرك من الوقت بقدر ما فاته فيلزمه قضاء جميع ما أدرك فإن لم يصم حتى أدركه الموت فعليه أن يوصي بالفدية كذا في البدائع ويطعم عنه وليه لكل يوم مسكينا نصف صاع من بر أو صاعا من تمر أو صاعا من شعير كذا في الهداية. فإن لم يوص وتبرع عنه الورثة جاز، ولا يلزمهم من غير إيصاء كذا في فتاوى قاضي خان. ولا يصوم عنه الولي كذا في التبيين لزمهما القضاء بقدر الصحة والإقامة، وهذا قولهم جميعا من غير خلاف هذا هو الصحيح كذا في السراج الوهاج."

(کتاب الصوم، باب سادس، ج نمبر ۱، ص نمبر ۲۰۷، دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144610101289

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں