بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جی پی فنڈ پر ملنے والے منافع کاحکم


سوال

 میں نے مختلف فتاوی جات میں پڑھا ہے کہ گورنمنٹ اپنے ملازمین کو جی پی فنڈ دیتی ہے یہ فنڈ اس کی تنخواہ سے کاٹے جاتے ہیں۔ مگر اس پر سالانہ کے حساب سے کچھ فیصد اضافہ ہوتا ہے۔میں نے مختلف فتاوی جات میں پڑھا ہے کہ اس کو لینا جائز ہے اور جواز کی  صورت یہ بتاتے ہیں کہ یہ گورنمنٹ کی ملکیت ہوتی ہے؛  اس لیے جائز ہے۔ اس پر میں بھی متفق تھا، لیکن اب پشاور میں گورنمنٹ نے ایک فارم  نکالا ہےکہ اگر کوئی اس فارم کو پر کرے گا تو اس کے جی پی فنڈ پر سود نہیں ملی گی تو اب کیا حکم  ہوگا؟ 

جواب

صورتِ  مسئولہ میں جی پی فنڈ میں ملازم کی   ماہانہ تنخواہ سے جو رقم کاٹی  جاتی ہے اگر یہ جبری ہے،منع کرنے کے باوجود کاٹی   جاتی ہے تو ملازمت ختم ہونے کے بعد اس فنڈ سے ملازم کوجتنی بھی رقم ملے گی وہ اس ملازم  کے  لیے حلال ہوگی،سود نہیں ہوگی ،اس کو لینا اور استعمال کرنا جائز ہوگا ۔  اوراگر یہ کٹوتی اختیاری ہے تو  جو رقم ملازم  نے اپنے اختیار سے کٹوائی ہے اور اس پر محکمہ نے اپنے جانب سے جو اضافہ کیا ہے  ان دونوں قسموں کی رقم کا وصول کرنا تو جائز هے، البتہ اس پر سود کے نام سے ملنے والی رقم کا لینا جائز نہیں ہے۔

 پشاور گورنمٹنٹ نے جو فارم  نکالا ہے ،جسے پرکرنے کی صورت میں ملازم کو اضافی رقم جو سودی ذرائع سے حاصل کی جاتی  ہے،  نہیں ملے گی،  اگر یہ فنڈ جبری ہے تو ملازم کے  لیے اس فارم کو پرکرکے اس اضافی رقم کو بندکرادیناضروری نہیں ،اور اگر کٹوتی اختیاری ہے تو مذکورہ فارم کو پر کر کے اس اضافی رقم کو بند کر دینا  چاہیے۔

جواہر الفقہ میں حضر ت مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب رحمہ اللہ اس مسئلہ سے متعلق لکھتے ہیں:

"جبری پراویڈنٹ فنڈ پہ سود کے نام پر جو رقم ملتی ہے  ،وہ شرعًا سود نہیں ، بلکہ اجرت(تنخواہ) ہی کا ایک حصہ ہے،  اس کا لینا اور اپنے استعمال میں لانا جائز  ہے  ، البتہ پراویڈنٹ فنڈ میں رقم اپنے اختیار سے کٹوائی جائے تو اس میں تشبہ بالربوا بھی ہے اور ذریعہ  سود بنا لینے کا خطرہ بھی ہے ، اس لیے اس سے اجتناب کیا جائے۔"

(ج:3،ص:257،ط:مکتبہ دار العلوم کراچی)

البحر الرائق میں  ہے :

"(قوله: بل بالتعجيل أو بشرطه أو بالاستيفاء أو بالتمكن) يعني لايملك الأجرة إلا بواحد من هذه الأربعة، والمراد أنه لايستحقها المؤجر إلا بذلك، كما أشار إليه القدوري في مختصره، لأنها لو كانت دينًا لايقال: إنه ملكه المؤجر قبل قبضه، وإذا استحقها المؤجر قبل قبضها، فله المطالبة بها وحبس المستأجر عليها وحبس العين عنه، وله حق الفسخ إن لم يعجل له المستأجر، كذا في المحيط. لكن ليس له بيعها قبل قبضها".

(البحر الرائق 7/ 300، ط: دارالكتاب الإسلامي)

ردالمحتار میں ہے:

"(قوله:كل قرض جر نفعًا حرام) أي إذا كان مشروطًا، كما علم مما نقله عن البحر۔"

(کتاب البیوع ،مطلبكل قرض جر نفعا حرام5/ 166، ط: سعيد)

الدرالمختار میں ہے:

"(خال عن عوض)۔۔۔(بمعيار شرعي) وهو الكيل والوزن فليس الذرع والعد بربا (مشروط) ذلك الفضل (لأحد المتعاقدين) أي بائع أو مشتر ۔۔۔(في المعاوضة) ۔"

(کتاب البیوع ،مطلب في الإبراء عن الربا5/ 1698/ 170، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100541

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں