بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

جی پی فنڈ میں ملنے والے نفع کا حکم


سوال

1- ہم ایک سرکاری ادارے میں کام کرتے ہیں، گورنمنٹ ہماری تنخواہ سے ہر ماہ gp فنڈ کی مد میں کچھ رقم کاٹ لیتی ہے اور اس پر منافع لگادیتی ہے جو کہ گورنمنٹ کے پاس ہمارے نام سے جمع ہوتا ہے اور ریٹائرمنٹ پر ہمیں واپس کردیتی ہے، تو آیا مذکورہ منافع سود کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں؟

2- دورانِ سروس جب بھی ہم gp فنڈ یا پراویڈنٹ فنڈ نکلوانا چاہیں تو تقریباً 70 فیصد نکال سکتے ہیں جو کہ ہر ماہ قسطوں کی صورت میں جمع کرانا ہوتا ہے اور تقریباً 5 فیصد زیادہ جمع کرانا ہوتا ہے اور یہ بھی ہمارے gp فنڈ ہی میں جمع ہوتا ہے، تو آیا دوران سروس ہمارے لیے gp نکلوانا جائز ہے یا نہیں؟

3- ہمارے پاس یہ اختیار ہے کہ ہم ایک درخواست دے کر gp فنڈ کو بغیر منافع کے کرواسکتے ہیں، ایسی صورت میں جو رقم ہماری تنخواہ سے کاٹی جاتی ہے، وہی رقم بغیر منافع کے ریٹائرمنٹ پر ہمیں واپس مل جاتی ہے، تو کیا ہمارے لیے gp فنڈ بغیر منافع کے کروانا ضروری ہے یا نہیں؟

واضح رہے کہ ہماری تنخواہ سے جو رقم کٹتی ہے، وہ ہمارے اختیار میں نہیں ہے اور gp فنڈ میں تقریباً تین طرح کی رقمیں جمع ہوتی ہیں: ایک وہ رقم جو ہماری تنخواہ سے کٹتی ہے، دوسری وہ جو گورنمنٹ شامل کرتی ہے اور تیسری وہ کہ ان دو رقموں کو گورنمنٹ کسی کاروبار، بینک یا کسی انشورنس کمپنی میں لگاتی ہے تو اس سے حاصل ہونے والا نفع بھی اسی فنڈ میں جمع ہوتا ہے اور ان تمام تر معاملات میں ہمارا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔

جواب

1- صورتِ مسئولہ میں جب تنخواہ سے کٹوتی جبری ہوتی ہے تو ملازمین کے لیے اصل رقم اور اس پر ملنے والی اضافی رقم وصول کرنا جائز ہے اور یہ اضافی رقم سود کے زمرہ میں نہیں آتی۔

2- سروس کے دوران جی پی فنڈ کے نام پر جمع ہونے والی رقم ملازم کی ملکیت نہیں ہوتی، اسی وجہ سے اگر دورانِ ملازمت اس رقم کو نکالا جائے تو یہ قرض شمار ہوتی ہے اور اس کی واپسی ضروری ہوتی ہے، نیز اس کو واپس کرنے میں 5 فیصد اضافی رقم بھی جمع کرانی پڑتی ہے، یہ اضافی رقم جمع کرنا سود میں داخل ہے، اس لیے مذکورہ فنڈ سے سروس کے دوران رقم نکالنا جائز نہیں ہے۔

3- اضافی رقم بند کرنے کے لیے درخواست دینا ملازمین پر لازم نہیں۔

مسلم شریف میں ہے:

"عن جابرقال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌آكل ‌الربا ومؤكله وكاتبه وشاهديه وقال: هم سواء."

(ج:3، ص:1219، کتاب المساقاۃ، باب لعن آكل الربا ومؤكله، ط:دار احیاء التراث العربي)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن عبادۃ بن الصامت قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم: الذھب بالذھب والفضة بالفضة والبر بالبر والشعیر بالشعیر والتمر بالتمر والملح بالملح مثلا بمثل سواء بسواء یدا بید، فإذا اختلف ھذہ الأصناف فبیعوا کیف شئتم إذا  کان یدا بید. مسلم."

(ص:244، کتاب البیوع، باب الربا، الفصل الأول، ط:قدیمي)

شرح المجلۃ للاتاسی میں ہے:

"ماحرم أخذہ حرم إعطائه، کما حرم الأخذ و الإعطاء فعلا حرم الأمر بالأخذ، إذ الحرام لایجوز فعله ولا الأمر بفعله ... ما حرم فعله حرم طلبه ... فکل شیئ لایجوز فعله، لایجوز طلب إیجادہ من الغیر، سواء کان بالقول أو بالفعل بأن یکون واسطة أو آلة لإیجادہ.

(ج:1، ص:77، المادۃ:34، ط:رشیدیة)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144305100500

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں