کیا حکومتِ پاکستان کی طرف سے دیے گئے قرضہ جات کو لے سکتے ہیں کاروبار کرنے کے لیے؟
عام طور پر حکومت کی طرف سے جو قرضہ دیا جاتاہے اس قرض کی واپسی میں اصل رقم سے زائد رقم کی ادائیگی کو لازم قرار دیا جاتا ہے، جس کو شرعاً سودی قرضہ کہا جاتا ہے اور سود پر قرضہ لینا جائز نہیں ہے۔
احادیثِ مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کی قباحت بیان فرمائی ہے، چنانچہ حدیث شریف میں ہے:
عن جابر بن عبدالله رضی الله تعالیٰ عنه قال: لعن رسول الله صلی الله علیه وسلم آكل الرّبا وموكله وكاتبه وشاهدیه، وقال: هم سواء. (رواه مسلم)
(البیوع، باب لعن آكل الرّبا وموكله، ص:297، رقم الحدیث:1598، ط: دارالسلام)
ترجمہ:”حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے اور سود دینے اور سودی حسابات یا تحریر لکھنے والے اور سودی لین دین پر گواہ بننے والوں پر لعنت فرمائی ہے، اور فرمایا کہ یہ سب لوگ گناہ میں برابر ہیں۔“
اس کے بجائے کسی ایسی جگہ سے قرض حاصل کرنے کی کوشش کریں جو قرض کی واپسی پر اصل رقم سے زائد رقم کی ادائیگی کو لازم قرار نہ دے، اگر یہ ممکن نہ ہو تو کسی سے مضاربت کے طور پر رقم حاصل کر لیں، مضاربت کا معنیٰ یہ ہے کہ رقم کسی دوسرے شخص کی ہو اور محنت آپ کی، اس رقم سے کاروبار کریں اور اس کے منافع کو باہم طے کردہ شرح فیصد کے تناسب سے تقسیم کر لیں۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144108200522
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن