بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 جمادى الاخرى 1446ھ 04 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

غوث اعظم، فاروق اعظم اور امام اعظم کہنے کا حکم/ایک حدیث کی شرح


سوال

۱- کچھ حضرات شیخ عبد القادر جیلانی کو غوث اعظم کہتے ہیں، حالاں کہ غوث اعظم کے معنی ہے ”بڑا مددگار“ تو بڑا مددگار تو اللہ تعالی ہے۔ اگر شیخ عبد القادر جیلانی کو غوث اعظم کہنا جائز نہیں تو فاروق اعظم کہنا بھی شاید جائز نہیں، کیوں کہ فاروق اعظم کے معنی حق وباطل میں فیصلہ کرنے والا، حالاں کہ حق وباطل میں فیصلہ کرنے والا تو صرف اللہ تعالی ہے۔ اسی طرح امام اعظم ابوحنیفہ کو امام اعظم کہنا بھی شاید جائز نہیں کیوں کہ امام  اعظم سے تو بڑے صحابہ کرام کی جماعت میں موجود ہیں۔ لہذا جب غوث اعظم کہنا ٹھیک نہیں تو دوسروں کو اعظم کہنا کہاں سے ٹھیک ہے؟

۲-  ہمارا عقیدہ وایمان ہے کہ حالت غیب میں صرف اور صرف اللہ تعالی ہی کو پکارا جائے، لیکن ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ”جب تم میں سے کسی کی کوئی چیز گم ہوجائے یا کوئی شخص ایسی جگہ پر ہو جہاں کوئی نہ ہو اور وہ مدد لینا چاہے تو تین مرتبہ یو کہے "یا عباد الله أغيثوني" ( اے اللہ کے بندوں! میری مدد کرو) بے شک اللہ کے کچھ ایسے بندے ہیں جو تمہیں دکھائی نہیں دیتے“۔ اس حدیث کو ملا علی قاری نے مشکاۃ کی شرح مرقاۃ میں نقل کیا ہے اور فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے۔تو کیا غیب میں جب کہ کوئی نہ ہو اللہ تعالی کے بندوں کو پکارنا جائز ہے، کیا یہ شرک تو نہیں؟ برائے مہربانی تفصیلی رہنمائی فرمائیں۔

جواب

۱- واضح رہے کہ غوثِ اعظم سے لغوی معنی مراد نہیں ہوتے، بلکہ ”غوث“ صوفیائے کرام  کی خاص اصطلاح ہے اور ایسا شخص پورا دنیا میں صرف ایک ہی ہوتا ہے، جس کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ مستجاب الدعوات ہوتا ہے۔ اس اصطلاحی معنی کے اعتبار سے شیخ عبدالقادر جیلانی کو غوث اعظم کہا جاتا ہے، لہذااس معنی کے اعتبار سے مذکورہ لقب سے ان کا تذکرہ ممنوع نہیں۔لیکن ناواقف لوگ ان کو حاجت روا  اور مشکل کشا سمجھتے ہیں، لہذا اس باطل عقیدہ کی رو سے غوث اعظم کہنا جائز  نہیں، بلکہ یہ تو واضح طور پر شرک ہے۔ باقی فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو ”فاروق“ کے لقب سے نبی اکرم ﷺ نےنوازا، اور اعظم کی صفت ان کے زمانے اور بعد کی ہستیوں کی بنسبت کی جاتی ہے، ظاہر ہے کہ حق وباطل کے درمیان فیصلے کا یہ وصف آپ کے درجہ میں کسی اور کو حاصل نہیں تھا، اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ”فاروق اعظم“ کہا جاسکتا ہے،اس کے علاوہ امام ابو حنیفہ کو امام اعظم کا لقب اس وجہ سے ملا ہے کہ وہ ائمہ اربعہ میں فقہی اعتبار سے سب سے بلند اور تدوین فقہ میں سب سے مقدم ہیں،اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ وہ صحابہ کرام سے بڑھ کر ہیں،اس لیے ان کو امام اعظم کہنے میں کوئی حرج نہیں،اور امام اعظم کا مطلب ہے بڑا استاد۔

۲- مذکورہ حدیث میں جو صورت وارد ہوئی ہے، اس کا صحیح محمل یہ ہے کہ کوئی آدمی جنگل وغیرہ کسی جگہ پر ہو جہاں کوئی انسان نہ ملے، جس کے ذریعے وہ مدد طلب کر سکے تو بھی یہ ممکن ہے ، بلکہ متوقع ہے کہ وہاں کچھ فرشتے یا جنات ہوں، جو انسانوں کی نظروں سے پوشیدہ ہوتے ہیں، لہذا ان میں سے کوئی آواز سن لے اور مدد کر دے  اور یہ غیب سے پکارنا نہیں ہے،لہذا یہ شرک بھی نہیں ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے آپ پریشانی کے عالم میں اپنے سامنے  موجود لوگوں سے تعاون مانگیں تو یہ جائز ہے، شرک نہیں ہے۔ لہذا "اغیثونی"کا یہ مطلب نہیں کہ جو وہاں حاضر نہ ہوں ان کو یہ تصور کر کے پکارا جائے کہ وہ وہاں حاضر ہوجائیں۔

مفتی کفایت اللہ صاحبؒ لکھتے ہیں:۔

”حديث يا عباد الله اعینونی الخ حصن حصین میں بروایت طبرانی مروی ہے، مگر اس میں عباد اللہ سے فرشتے یا مسلمان جن مراد ہیں جو انسان کی نظر سے مخفی مگر وہاں قریب موجود ہوتے ہیں یا ان کا وجود مظنون ہے اور ان کو مدد کے لئے پکارنا اس تصور پر ہے کہ وہ پکارنے والے کے قریب سے اس کی آواز سن کر اس کی مدد کر سکتے ہیں جیسے ایک انسان دوسرے مصیبت زدہ انسان کی فریاد سن کر اس کی مدد کر سکتا ہے۔”

(کفایت المفتی، کتاب الحدیث والاٰثار،ج: 2، ص: 149، ط: دار الاشاعت) 

 المقاصد الحسنہ میں ہے:

"وفي تاريخ بغداد للخطيب عن الكتاني قال: النقباء ثلاثمائة، والنجباء سبعون، والبدلاء أربعون، والأخيار سبعة، والعمد أربعة، ‌والغوث ‌واحد... فإذا عرضت الحاجة من أمر العامة ابتهل فيها النقباء، ثم النجباء، ثم الأبدال، ثم الأخيار، ثم العمد،فإن أجيبوا وإلا ابتهل الغوث، فلا تتم مسئلته حتى تجاب دعوته."

(الباب الأول، حرف الهمزة، ص: 46، ط: دار الكتاب العربي)

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

 أَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ أَإِلَٰهٌ مَّعَ اللَّهِ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ." ﴿النمل: ٦٢﴾

"ينبه تعالى أنه هو المدعو عند الشدائد، المرجو عند النوازل، كما قال تعالى: وإذا مسكم الضر في البحر ضل من تدعون إلا إياه [الإسراء: 67] وقال تعالى: ثم إذا مسكم الضر فإليه تجئرون [النحل: 53] وهكذا قال هاهنا أمن يجيب المضطر إذا دعاه أي ‌من ‌هو ‌الذي ‌لا ‌يلجأ ‌المضطر ‌إلا ‌إليه، والذي لا يكشف ضر المضرورين سواه."

(ج: 6، ص: 184، ط :دار الكتب العلمية)

سیر أعلام النبلاء میں ہے:

"ويروى عن ابن عباس بإسناد ضعيف، قال: سألت عمر، لأي شيء سميت الفاروق؟ قال: أسلم حمزة قبلي بثلاثة أيام، فخرجت إلى المسجد، فأسرع أبو جهل إلى النبي صلى الله عليه وسلم يسبه، فأخبر حمزة، فأخذ قوسه وجاء إلى المسجد، إلى حلقة قريش التي فيها أبو جهل، فاتكأ على قوسه مقابل أبي جهل، فنظر إليه، فعرف أبو جهل الشر في وجهه، فقال: ما لك يا أبا عمارة، فرفع القوس فضرب بها أخدعيه، فقطعه فسالت الدماء، فأصلحت ذلك قريش مخافة الشر، قال: ورسول الله صلى الله عليه وسلم مختف في دار الأرقم بن أبي الأرقم المخزومي، فانطلق حمزة فأسلم. وخرجت بعده بثلاثة أيام، فإذا فلان المخزومي فقلت: أرغبت عن دين آبائك واتبعت دين محمد؟ قال: إن فعلت فقد فعله من هو أعظم عليك حقا مني، قلت: ومن هو؟ قال: أختك وختنك. فانطلقت فوجدت همهمة، فدخلت فقلت: ما هذا؟ فما زال الكلام بيننا حتى أخذت برأس ختني ضربته وأدميته، فقامت إلي أختي فأخذت برأسه، وقالت: قد كان ذلك على رغم أنفك. فاستحييت حين رأيت الدماء، فجلست وقلت: أروني هذا الكتاب. فقالت: إنه لا يمسه إلا المطهرون. فقمت فاغتسلت، فأخرجوا إلي صحيفة فيها: "بسم الله الرحمن الرحيم" قلت: أسماء طيبة طاهرة. {طه، ما أنزلنا عليك القرآن لتشقى} إلى قوله: {له الأسماء الحسنى} [ط: 1-8] ، فتعظمت في صدري، وقلت: من هذا فرت قريش. فأسلمت، وقلت: أين رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قالت: فإنه في دار الأرقم. فأتيت فضربت الباب، فاستجمع القوم، فقال لهم حمزة: ما لكم؟ قالوا: عمر. قال: وعمر! افتحوا له الباب، فإن أقبل قبلنا منه، وإن أدبر قتلناه. فسمع ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم، فخرج فتشهد عمر، فكبر أهل الدار تكبيرة سمعها أهل المسجد. قلت: يا رسول الله ألسنا على الحق؟ قال: "بلى". قلت: ففيم الاختفاء. فخرجنا صفين أنا في أحدهما، وحمزة في الآخر، حتى دخلنا المسجد، فنظرت قريش إلي وإلى حمزة، فأصابتهم كآبة شديدة، فسماني رسول الله صلى الله عليه وسلم "الفاروق" يومئذ، وفرق بين الحق والباطل."

(إسلام عمر رضي الله عنه، ج: 1، ص: 144، ط: مؤسسة الرسالة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603102112

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں